ہم نے برباد کر لیا خود کو
کیونکہ ہم زندگی کے تھے ہی نہیں
کیسی مجبوری کیسے سمجھوتے
باخدا! عاجزی کے تھے ہی نہیں
خوب مہنگا پڑا خدا ہم کو
فطرتاً بندگی کے تھے ہی نہیں
اِس قدر یاد کیوں کیا ہم کو
ہم تمہاری کمی کے تھے ہی نہیں
خاک اُڑاتی تھی جس گلی ہم نے
یاراں ہم اُس گلی کے تھے ہی نہیں
عمر بھر اپنی کی گئی خواہش
اور بھلا ہم کسی کے تھے ہی نہیں
اِک سفر کی تھکن سے چور رہے
پر مسافر کبھی کے تھے ہی نہیں
تا ابد سُود رنج کا کھایا
کہ ازل سے خُوشی کے تھے ہی نہیں
ہم کو دھوکا دیا اندھیروں نے
اور ستم روشنی کے تھے ہی نہیں
ہوں تباہ حال پر نہیں افسوس
یُوں کہ شرمندگی کے تھے ہی نہیں
لب ترے دیکھ کر لگی ہے پیاس
ورنہ ہم تشنگی کے تھے ہی نہیں
نیچ جذبے ہوئے، کمینے خواب
ورنہ ہر دوسری کے تھے ہی نہیں
جانے کس نے جگا دیا ہم کو
نیند تھے خفتگی کے تھے ہی نہیں