باتیں بہت سی کیں وہ مگر مختصر سی بات
افسوس یہ کہ رہ گئی دل میں ہی دل کی بات
رسوائیاں تو خیر نہیں ایسی کوئی بات
لیکن ہو بات بھی تو کوئی بات جیسی بات
دل ہے کہ سننا چاہے ہے دشنام بھی ترے
لیکن دماغ بھی تو ہو سننے کا ایسی بات
کہنے کو بات بدلی مگر ساکھ کیا رہی
اب کون دل لگا کہ سنے گا تمہاری بات
کچھ اس میں سچ بھی ہوگا مگر اسقدر نہیں
جتنا کہ زور زور سے وہ ہو رہی تھی بات
کچھ کچھ قصور ان کی سمجھ کا بھی ہے ضرور
ورنہ جو شعر ہم نے کہے تھے وہی تھی بات
ہم نے تو ان کو دیکھا نظر بھر کے ایک بار
گھونگھٹ نہ سمبھلے ان سے تو یہ ہے نظر کی بات
مانو کہ ہم نے کھول کے دل رکھ دیا ندیم
دل میں رکھی نہ ہم نے کوئی جھوٹی سچی بات