ہم کو زمانے بھر سے ملے جب بھی غم ملے
جاری ہوئے ہیں آنکھوں میں چھم چھم کے سلسلے
آئی ہے پھر سے باغِ تمنا بہارِنو
پھر جاگنے لگے ہیں مرے سوئے ولولے
بدنامیوں کا خوف غمِ ہجر بن گیا
آشوب آگئے ہیں مگر ہونٹ نہ ہلے
ملتی ہے جن سے قلب کو تسکین دوستو
لازم نہیں کہ باغ میں وہ ہی پھول ہی کھلے
نہ شَیخ کو پتا ہے نہ پنڈت کو علم ہے
اب کون حل کرے گا محبت کے مسئلے
ہاتھوں میں جان لے کے چلو باندھ سر کفن
طے اس طرح سے ہوتے ہیں چاہت کے مرحلے
یہ داستانِ عشق بڑی درد ناک ہے
تم آزماو عشق میاں ہم تو اب چلے
وہ ہم کو اور کوئی انہیں بھی نہ مل سکا
ہیں جعفری تمام یہ قدرت کے فیصلے