ہنسی کس نے دی ہے ؟ رلایا ہے کس نے ؟
Poet: توقیر اعجاز دیپک By: محمد عرفان, Sialkotہنسی کس نے دی ہے ؟ رلایا ہے کس نے ؟
دیا کس نے جیون ؟ مٹایا ہے کس نے ؟
ترا آنا تجھ کو بھلایا ہے کس نے ؟
ترا جانا تجھ سے چھپایا ہے کس نے ؟
ترا جسم مٹی کا ویران گھر تھا
اسے آتما سے بسایا ہے کس نے ؟
ترے پاس جتنا بھی علم و ہنر ہے
تجھے وہ قلم سے سکھایا ہے کس نے ؟
بصارت کی نعمت عطا کر کے تجھ کو
تجھے حسنِ عالم دکھایا ہے کس نے ؟
تجھے نیند کی وادیوں میں سلا کر
مزا موت جیسا چکھایا ہے کس نے ؟
اسی خاک سے آدمی کو بنا کر
اسی خاک میں پھر ملایا ہے کس نے ؟
یہ ارض و سما کا جو ہے بوجھ سارا
ذرا سوچ اس کو اٹھایا ہے کس نے ؟
ازل سے ابد کی طرف جو رواں ہے
وہ اِک سلسلہ سا چلایا ہے کس نے ؟
پکھیرو کو نازک سے پنکھوں کے بل پر
فضاؤں میں اونچا اڑایا ہے کس نے
گھٹاؤں کو ہے کس نگر لے کے جانا
ہواؤں کو رستہ بتایا ہے کس نے ؟
فلک میں کڑکتی ہوئی بجلیوں کو
گھنے بادلوں سے بنایا ہے کس نے ؟
سمندر کے پانی سے برسا کے بارش
بیاباں میں سبزہ اگایا ہے کس نے ؟
جہاں سے برستے ہیں اولے زمیں پر
وہ پربت فضا میں بنایا ہے کس نے ؟
ہرے پیڑ سوکھی زمیں سے اگا کر
پھر آتش کو ان میں چھپایا ہے کس نے ؟
تزلزل سے دھرتی بچانے کی خاطر
پہاڑوں کو میخیں بنایا ہے کس نے ؟
کئی مِیل گہرے سمندر میں آخر
سفینہ جَبَل سا چلایا ہے کس نے ؟
یہ امبر جو پہلے دھواں ہی دھواں تھا
ستاروں سے سارا سجایا ہے کس نے ؟
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






