ہوئی نہ ختم تیری رہ گزار کیا کرتے
تیرے حصار سے خود کو فرار کیا کرتے
سفینہ غرق ہی کرنا پڑا ہمیں آخر
ترے بغیر سمندر کو پار کیا کرتے
بس ایک سکوت ہی جس کا جواب ہونا تھا
وہی سوال میاں بار بار کیا کرتے
پھر اس کے بعد منایا نہ جشن خوشبو کا
لہو میں ڈوبی تھی فصل بہار کیا کرتے
نظر کی زد میں نئے پھول آ گئے اظہرؔ
گئی رتوں کا بھلا انتظار کیا کرتے