ہوس میں رہ کے بے حواس پِھر رہے ہیں آج
ترے نگر میں ہم اُداس پِھر رہے ہیں آج
ہیں فاصلے بھی کافی، ہم میں اور تم میں دوست
اِسی سبب تو تیرے پاس پِھر رہے ہیں آج
اے دوستو! اے دشمنو! یہ پوچھنا اُسے
وہ زندگی سے کیوں نراس پِھر رہے ہیں آج؟
وہ چاہتوں کی آڑ میں بنے ہیں اجنبی
وہاں پہ ہم بھی روشناس پِھر رہے ہیں آج
جو شعر ہم کو خود سمجھ نہیں ہے آ سکا
وہ شعر لے کے ہم قیاس، پِھر رہے ہیں آج
کبھی بھی دل کے جو قریں نہیں رہے ہیں شاؔد
وہ میرے دل کے آس پاس پِھر رہے ہیں آج