ہیر رانجھے کو مار کے ظالم مسکرائے کہ عشق ختم
مگر دیکھ لو ظلم والوں آج بھی کتنے رانجھے کتنی ہیریں ہیں
مارے نفرتوں کے ہٹھوڑے تُم نے عشق کو توڑنے کے لئے
ہٹھوڑوں کی مار سے دیکھو گرم کتنی عشق کی شمشیریں ہیں
برسوں پہلے کیا جرم آدم نے اور جنت سے نکل گیا یاد ہیں!
مگر نہ ختم ہوئی سزا اپنی آج بھی پیروں میں زنجیریں ہیں
لکھنے والوں لکھو کچھ ایسا کہ حسین تاریخ بن جائے
جس طرح برسوں پہلے ’غالب‘ تھے جن کی زندہ تحریریں ہیں
سوچ رہا ہوں سمجھ نہیں آتا میں کون ہوں؟ تُم کون ہو؟
میری آنکھوں کے دائرے میں کچھ دُھندلی سی تصویریں ہیں
واہ! خدایا جاؤں صدقے ترے دے کے لمبی زندگی انسان کو
زندگی کے راز میرے ہاتھوں میں ترچھی جو جو لکیریں ہیں
خدایا تری تُو ہی جانے سوچ نہالؔ بے سمجھ ترے بعیدوں سے
کل تک حکومت کرتا تھا اُسی بادشاہ کے گلے میں لیریں ہیں