ہے دل کی مضطرب یہی اب میرے جستجو
مل جائے اب تو مثل ترے کوئی ہو بہو
میں نے نمازِ عشق ادا کی ہے چار سو
ٹوٹا نہیں ہے روح کے وجدان کا وضو
پیھلی ہوئی ہے دشت میں یہ داستِانِ دل
اٹھنے لگٰیں ہیں انگلیاں ہستی پہ کو بہ کو
کب تک خیالِ یار کے زندان میں رہوں
آجائے کوئی دل میں ہے یہ میری آرزو
دل کی زمیں وشمہ کی زرخیز ہے بہت
موسم خزاں میں کھلتے ہیں گل اس پہ چار سو