ہے نیاز عشق سے بے خبر جو نہ نکلے پردۂ ناز سے

Poet: بدیع الزماں سحر By: مصدق رفیق, Karachi

ہے نیاز عشق سے بے خبر جو نہ نکلے پردۂ ناز سے
دل غزنویؔ میں تڑپ تھی کیا کوئی پوچھے زلف ایازؔ سے

مرے حال دل کی روایتیں یہ چھپی چھپی سی حکایتیں
یہ کہاں کہاں نہ پڑھی گئیں ترے روئے مصحف ناز سے

مرے دل کو آ مرے میت لے مرے جسم و جان کو جیت لے
کہیں ہار جائے نہ زندگی غم ہجر ہائے دراز سے

یہ شکستہ تار یہ کشتہ تن یہ غنا میں ڈوبا ہوا بدن
سنو دھیمے دھیمے ہے نغمہ زن یہ خموشیٔ لب ساز سے

یہ ہے کور چشموں کی انجمن ہے بلا سے میری یہ ضو فگن
یہاں کس نظر میں ہے بانکپن جو ملائے دیدۂ باز سے

مرے دل کے تار کو چھیڑ کر جو اٹھے یہ نالۂ پر اثر
تو جلا نہ دے ترے بام و در یہ شرار شعلۂ ساز سے

یہ کمال شانہ نہیں سحرؔ ہے جمال آئینۂ نظر
یہ پریشاں کیسے سنور گئی ذرا پوچھو زلف دراز سے
 

Rate it:
Views: 140
24 Jun, 2025