ہے وقتِ سحر ،یادِ خدا کیوں نہیں آتی
گھر گھر سے محبت کی صدا کیوں نہیں آتی
بدلے ہوئے موسم میں خزاؤں کی جھلک ہے
خواہش کے پرندے میں وفا کیوں نہیں آتی
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
آنکھوں میں خزاؤں کی وبا کیوں نہیں آتی
یہ عشق کے شعلے مجھے جھلسا کے رہیں گے
امید کی برفیلی ہوا کیوں نہیں آتی
اس بام پہ کیوں پیار کی میں شمع جلاؤں
مہرِ رخ روشن کی ضیا کیوں نہیں آتی
مجبور ہوں، میں وقت سے ہاری بھی ہوئی ہوں
دلگیر ہوں پھر دل سے دعا کیوں نہیں آتی
یہ عشق کے شعلے بھی عجب چیز ہیں وشمہ
اس دل کو جفاؤں کی ادا کیوں نہیں آتی