یادوں کے دریچے سے وہی روپ دکھا جا
پلکوں کے جھروکوں پہ کوئی آس سجا جا
وہ جن گھنے پیڑوں کے تلے کھائی تھیں قسمیں
آ انکو آ کے پھر گل و گلزار بنا جا
میں خود فریبیوں میں کہاں تک پڑا رہوں
ہاتھوں کی لکیروں سے میرے خواب چرا جا
آتے ہیں یاد اب بھی وہ سب ریشمی لمحے
اے ناز ناز پھر وہی احساس جگا جا
مدت ہوئی حیات جہاں روٹھ گئی تھی
میںاب بھی وہیں ہوں تجھے جانا ہے چلا جا
اے روح معانی تیری تطہیر کے صدقے
آ پھر میرے ادراک کی بانہوں میں سما جا
میں تو جیا ہوں عمر تیرے ساتھ کے بل پر
یہ ہر قدم پہ روٹھنا مجھکو بھی سکھا جا
دیکھو ناں کب سے زرد خیالوں میں پڑے ہیں
شعروں کو اپنی ذات کے کچھ راز بتا جا