کیسا حسین اتفاق تھا اچانک ملاقات ہماری
کتنے دورس اثرات میری زندگی پر چھوڑ گئی
انجان تھے پہلے اب دل کے مہمان بن گئے
اجنبیت مٹا کر کیسی گہری پہچان دے گئی
دوالگ جسم کیسے اک پل میں یکجان ہوگئے
ایک دوسرے کو محسوس کرنے کے قابل ہو گئے
فاصلے مٹا کر آپس میں کتنے نزدیک ہو گئے
جینے کے لیئے ہمیں حسین اسباب چھوڑ گئی
صورت آنکھوں میں رکھتے ہیں شبُ و روز اُنکی
شکوے مٹا کر دل میں چاہت رکھتے ہیں اُنکی
سانسوں میں مہک بسائے ہیں اُنکی
قُربتیں دلا کر ہمیں اُنکی ضرورت چھوڑ گئی
انتظار اُنکا ہم کرتے ہیں اب جھوم کر
شدتِ پیار میں مسرور ہیں جھومتے رہتےہیں
مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیرتے رہتے ہیں
اُنسے ملنے کی ذوالفقار کے دل میں مُستقل خواہش چھوڑگئی