یاد آتی ہے تیری تو آتی ہی چلی جاتی ہے
دل کو ہر لمحہ بس یوں ہی تو تڑپاتی ہے
تجھ بن دل سُونا سُونا سا لگتا ہے
جیسے کوئی وحشت رونما ہوجاتی ہے
تیرا ہر ستم سہہ کر بھی نہ کوئی لب کشائی
تیرے ہر ستم میں کرم کی بُو ہی آتی ہے
میں جہاں ہوں تو وہاں ہے یہ عجیب سا بندھن ہے
میرے ہر نَفَس میں تو ہے ہر سانس یہ بتلاتی ہے
میرا ہر پل تیری یاد ہی میں تو گزرتا ہے
تیری ہی یاد تو دل کو بھی چین دِلاتی ہے
تیرے ہی تو تصور میں شب و روز گزرتے ہیں
نہ ہو تیرا تصور تو یہ بے چینی بڑھاتی ہے
نہ اثر کو قیس سے مطلب نہ جنوں بھی ہے کوئی
جو ہو سچی طلب تو محبت دل میں سماتی ہے