یوں تو یہ زندگی کے کرب کو چھپاتے ہیں
خواب کچھ برسر مژگاں بھی چھلک آتے ہیں
اندھیری رات میں تمہاری یاد کے جگنو
امید بن کے نگاہوں میں ٹمٹماتے ہیں
کبھی تم آؤ گے جو روبرو تو دیکھیں گے
ستارے حسن سے شرما کے کدھر جاتے ہیں
یوں بھی ہوتا ہے کبھی چاند کے چاہنے والے
فریب عکس سے ندیا میں ڈوب جاتے ہیں
خمار چمن میں انہیں نظر انداز نہ کر
یہ مسلے پھول کوئی داستاں سناتے ہیں