درد آنکھوں سے اشک بن کے ٹپکتے رہے
تیری یادوں کے موسم یوں ہی کٹتے رہے
جو چمن میں پھول بن کے مہکتے رہے
مسلے گئے تو کئی دل تڑپتے،سسکتے رہے
نظام بدلنے کی آس تھی جن سے
ہر پل وہ نئے رُوپ بدلتے رہے
ہم نے تو دل تیرے نام کر دیا تھا
پھر کیوں ہم سے یہ فاصلے رہے
دل کے مکاں میں صرف تُو ہی بسا ہوا تھا
تیرے ہجر سے اب تک ویرانیوں کے سلسلے رہے
دل و جاں اُن کی چاہت میں ہار بیٹھے فضل
یار بے وفا کو پھر بھی ہم سے گِلے رہے