یوں نہیں ہے کہ ہم بے زباں ہیں
ہم جو بولیں وہ سنتے کہاں ہیں
میں جو محفل میں پاس ان کے جاؤں
کہتے ہیں دوست تیرے وہاں ہیں
ہم اکیلے نہیں اس کے مارے
عش میں تو کئی نوحہ خواں ہیں
شیخ صاحب انھیں جا کے دیکھو
ا ن کی آنکھیں ہی دونوں جہاں ہیں
ہے جہاں ان کی زلفوں سے پاؤں تلک
یہ زمیں اور وہ آسماں ہیں
آج پینے میں ایسا بھی کیا ہے
شیخ صاحب بھی بیٹھے یہاں ہیں
پھر سے کیسے یقیں تم پہ کر لیں
اب تو خود سے بھی ہم بد گماں ہیں
کل تلک ہم پہ وہ مہرباں تھے
آج غیروں پہ وہ مہرباں ہیں
ناتواں دل یہ ایسا ہوا ہے
اب تو سانسیں بھی اس پر گراں ہیں
آج بھی شانؔ ہیں یاد ہم کو
اس کمر پہ جو تل کے نشاں ہیں