یہاں ابتدا سے بھی پیشتر
کسی انتہا کا مقام ہے
میں بکھر گیا کہیں ٹوٹ کر
مری کرچیوں کو سمیٹ لے
مری سانس سانس گواہ ہے
ترا نام لیتا ہوں ہر گھڑی
ترا نام میں نے لیا نہیں
ترا درد روٹھا ہے شام سے
مرے ماہ و سال تمام کر
مری آبرو کا حساب دے
ترا وصل ایک مزاج تھا
کہیں لڑ جھگڑ کے چلا گیا
ترا ہجر رہتا ہے رو برو
مرا حوصلہ بھی عجیب ہے