اس طرح خود کو محبت میں بھلا سکتے ہیں
نام لکھتی ہوں ترا لکھ کے مٹا سکتے ہیں
نام لیتے نہیں رکنے کا یہ آنسو میرے
تب ترے نام کی اک بزم سجا سکتے ہیں
یہ الگ بات کہ تجھ تک نہیں پہنچی لیکن
میں ہر اک بار تجھے دل سے لگا سکتے ہیں
بس اسی سوچ میں بیٹھی ہوں کہ تو آئے گا
روز دہلیز پہ پلکیں میں بچھا سکتے ہیں
فلسفہ کیا ہے محبت کا یہ جانا جب سے
تب سے پتھر کو بھی میں ہیرا بنا سکتے ہیں
دل کی چوکھٹ ہوئی تقسیم دریچوں میں کئی
ہائے چاہت تو بہت اپنا بنا سکتے ہیں
پوچھتے رہتے ہیں مجھ سے سبھی اربابِ سخن
کس طرح غم کو تبسم میں چھپا سکتے ہیں
جب سناتی ہے سرِ بزم کوئی وشمہ غزل
در حقیقت اسے اس شام ہلا سکتے ہیں