یہ کیسی منزل
یہ کیسا سفر ہے
نا آج کا پتہ
نا کل کی خبر ہے
چلنا ہے مجھے تنہاہ
نا کوئی ڈگر ہے
دل میرا انجان ہے
لمحوں کا مہمان ہے
گھپ اندھیرہ ہے
چھپا سویرا ہے
دکھائے گا مجھے
چہرہ . . . . .۰
جس پہ آج نقاب
کا پہرہ ہے
خاموشی کے گھونٹ پی لوں گی
زندگی تھوڑی سی جی لوں گی
سایہ نا یہاں شجر کا ملے گا
دل اس عالم میں تنہاہ جلے گا
پھر بھی میں راضی ہوں
اس سفر سے نا باغی ہوں
اس شخص نے کہا تھا
اس سفر کی منزل پہ
میں تجھے ملوں گا
پھر تیرے ساتھ
مرتے دم تک چلوں گا
ہاں مجھے نکلنا ہے اس قافلے پر
رکھنا نہیں کچھ بھی فاصلے پر
میری منزل مجھے ملے گی
اس سفر کی ڈگر مجھے ملے گی
یہ راستا بہت کٹھن ہے
بڑھتے قدم پہ اک شکن ہے
مجھے بتایا ہے ان راستوں نے
یہ تشنگی کی چاہ ہے
یہ دیوانگی کی راہ ہے
ہاں یہ دیوانگی کی راہ ہے