یہ جو تُم بے سبب رُوٹھ جاتے ہو
لگتا ہے کہ اب تم جدائی چاہتے ہو
جُومتے ہوئے گاتے ہوئے مسکراتے ہوئے
سچ بتائو جانم کس سے مل کے آتے ہو
تری آنکھیں انکار کرتی ہے اُن سے
جو باتیں تم اب جاناں! بتاتے یو
گر سینے میں نہیں محبت ترے
پھر کیوں محبت سے سینے سے لگاتے ہو
جب ہوتا ہے مطلب تو ڈورے آتے ہو
مطلب نکلتے ہی بھول جاتے ہو
رُلانا تم نے جدا ہو کے بھی نہ چھوڑا
کبھی یادوں میں کبھی خوابوں میں رُلاتے ہو
میری قسمیں کھا کھا کے مجھے ہی کھا گئے تم
اب بتائو کس کے سر کی قسمیں کھاتے ہو
شعروشاعری کے ہنر سے بے خبر ہوں میں
تم کہہ کے شاعر مجھے میرا مزاق اُڑاتے ہو
جھگڑتے رہتے ہیں دل ودماغ میرے
تم جب تلخیوں کی آگ لگاتے ہو
توڑ کے تِیر میری چاہتوں کے نہال
صاحبہ جیسی مجھ سے وفا نباتے ہو