یہ جو دیوار پہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تصویر لگا رکھی ہے
جیسے کمرے میں پری کوئی بٹھا رکھی ہے
میرے ہر شعر پہ ہی داد مجھے ملتی ہے
تم نے بس ایک غزل سر پہ اٹھا رکھی ہے
جانے کب تو بھی گزر جائے ہمیں علم نہ ہو
اس لیئے گھر کی یہ دیوار گرا رکھی ہے
میں تجھے زندگی کہتا تھا تجھے یاد نہیں
زندگی اب بھی تو سینے سے لگا رکھی ہے
میں تو ہر بار ہی بازی کو پلٹ دیتا ہوں
وہ جلاتا ہے دیئے میں نے ہوا رکھی ہے
تھا بہت شوق سنورنے کا ۔ ۔ ۔ ۔ اسے تو آرب
کیا ہے حالت یہ جو اب اس نے بنا رکھی ہے