یہ دل تو پہلے ہی قائل ہے تیری خوش بیانی کا
Poet: سنابلؔ By: سنابلؔ, Karachiیہ دل تو پہلے ہی قائل ہے تیری خوش بیانی کا
تیرا انداز یکتا ہے دلوں کی ترجمانی کا
بہت دن ہوگئے ہیں خواب میں دیکھے ہوئے تم کو
ہمیں بھی دو شرف آکر تم اپنی میزبانی کا
مجھے بھی فیض مل جاتا یقیناً ذات سے تیری
اگر میں حصہ بن جاتی تمھاری زندگانی کا
ہمیشہ وہ ہی دل توڑتے ہیں یا رلاتے ہیں
جنہیں احساس ہوتا ہے محبت کے معانی کا
وطن سے دُور رہ کر کیا دلِ بیمار پر گزری
سنائوں کیا تمہیں قصہ میں اپنی بے سامانی کا
دعائیں پوری ہوجائیں، کوئی تعویذ چل جائے
ہے دل پھر منتظر کوئی صدائے آسمانی کا
تمھارے نام سے وابستہ ہے خوشیاں زمانے کی
بچھڑ کے دیکھا ہے نہ کوئی لمحہ شادمانی کا
ہمیشہ زندہ رکھتے ہو مجھے غزلوں میں تم اپنی
فخر ہے میں ہی ہوں عنوان تیری ہر کہانی کا
کبھی آہیں، کبھی آنسو، کبھی بے جین دل تھاموں
نتیجہ یہ ہی ہوتا ہے زخم سے چھیڑ خانی کا
سنابلؔ کے لئے تو اہم ہے بس ایک ہی بندہ
بتائو مُعتبرؔ کیا ہے ارادہ عقدِ ثانی کا ؟؟
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






