سفر آسان ہو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
میں تیرے ساتھ کھو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
بہت سی رنجشیں ایسی ہیں کہ جن پر ندامت ہے
میں سارے داغ دھو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
بھلا کر زندگانی کی سبھی سوچیں سبھی فکریں
تیرے پہلو میں سو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
تیرے فردا کے لمحوں سے مہک کیسے نہ پھر اٹھتی
میں ایسے خواب بو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
تیرے دامن میں آ کر زندگی سیراب ہو جاتی
اسے میں یوں بھگو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
تیرے ہر ایک لمحے میں میں اپنے پیار کے صدقے
کئی صدیاں سمو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
تیری یادوں میں خوشبو چاند تارے تتلیاں جگنو
نہ میں کیا کیا پرو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا
ابھی تک دھڑکنیں جسکی فقط نثری سی لگتی ہیں
یہ دل شاعر سا ہو جاتا اگر تو مل گیا ہوتا