ایسا رائی ہوں جس کا ہم سفر نہیں ہے
مجھے منزل کی بھی کوئی خبر نہیں ہے
جسے مانگا تھا خداسے وہی نہیں ملا
شاید میری دعاؤں میں اثر نہیں ہے
میں اپنے پیارے یار کو کیسے مناؤں
جو میری خطاؤں کو کرتا درگزر نہیں ہے
یہ اس کا تغافل ہے یا نا جانے کیا
یہ نہیں کے اسے میرےحال کی خبر نہی ہے
ایک دن اسے میرا خیال آئے گا ضرور
اس کا دل موم ہے کوئی پتھر نہیں ہے
میرا شہر اس کے لیے اجنبی تو نہیں
مگر وہ بھول کر بھی آتا ادھر نہیں ہے
میں جیتے جی تجھے کیسے بھول جاؤں
اتنا پتھر دل تو تیرا یہ یار اصغر نہیں ہے
اصغر جو کچھ بی لکھتا ہےسب فرضی ہے
کچھ بھی محترمہ سویرا جی کی نذر نہیں ہے