تمہاری یاد آتے ہی سماں ایسے پگھلتا ہے
کہ جیسے روح کا آتش فشاں لاوا اگلتا ہے
شب ہجراں کے گھیرے میں کبھی نہ آرزو کھونا
جہاں پر شام ہوتی ہے وہاں دن بھی نکلتا ہے
ہزاروں جستجوؤں کے جلو میں زندگی نکلی
چلو دیکھیں کہاں یہ قافلہ جا کر ٹھہرتا ہے
وہاں تو بس تمہارے نام کی گردان ہی دیکھی
یہ سنتے تھے کہ سینے میں کہیں دل بھی دھڑکتا ہے
جبیں یونہی جھکی رہتی نہیں تمہاری چوکھٹ پر
منازل کا ہر اک رستہ اسی در سے نکلتا ہے
جوار شوق میں رہنا سکھایا مجھکو فطرت نے
تمہیں اب کیسے سمجھاؤں سمے کیسے گزرتا ہے
ابھی الجھاؤ نہ الفت کو ان تعبیر گاہوں میں
یہ وہ حاصل ہے کہ جو خواب کی بھٹی میں پلتا ہے
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ میری تقدیر کا تارا
ذرا دیکھوں تو مجھ سے بڑھ کے یہ کیسے مچلتا ہے
میرے اشعار کے زینے سے اتری چاند کی کرنیں
کہاں ہو تم کہ ہر جذبہ تمہیں اب بھی ترستا ہے