سرد ہوائیں چل پری اشقو ں نے طوفان مچایا ہے
اب تو لوٹ آؤ جانا کہ دسمبر آیا ہے
کتابوں میں رکھے پھول پھر سے مہک اٹھے
رُخ تیرا ہی ہر آئینے میں سمایا ہے
اب تو لوٹ آؤ جانا کہ دسمبر آیا ہے
خط خیال ،یاد اور یہ انتظار کب تک
اے بے رحم کیوں اتنا مجھے ستایا ہے
اب تو لوٹ آؤ جانا کہ دسمبر آیا ہے
پتوں کی آہٹ بھی چبھتی ہے دل کو
موسم کو کس نے رستہ میرے گھر کا دکھایا ہے
اب تو لوٹ آؤ جانا کہ دسمبر آیا ہے
زندہ ہوں تو بس تیری ہی امید پر ساغر ؔ
دل میں فقط تجھے ہی بسایا ہے
اب تو لوٹ آؤ جانا کہ دسمبر آیا ہے