اپنی آنکھوں میں فُرقت کے وہ لمحے رہے
اُس کےچہرے پہ خوشیوں کے گُل کھلے رہے
دل کے زخم سدا ہرے بھرے رہے
موسم گل کو مگر ہم سے فاصلے رہے
نظر کوزندگی بھر تلاش رہی اُس کی
دل بیتاب میں چاہت کے زمزمے رہے
میرے ہونٹوں پہ تیرا نام رہتا ہے
تیرے لبوں پہ مگر سدا گلے رہے
شب فراق طویل تر ہوئی فضل
شاید اُس کے گیسوکُھلے رہے