تجھ سے بچھڑ گئی تو بھلا جاؤں گی کہاں
تیرے بغیر رہ کے تو مر جاؤں گی میں ،ہاں
زندہ ہوں میں فقط تری چاہت کے واسطے
مرنے کے بعد تیری مری ایک داستاں
ظالم زمانہ اپنے ستم توڑنا رہے
چپ چاپ میں بھی ، دیکھنا، مر جاؤں گی یہاں
چشمِ خیال میں تری تصویر ہی رہی
میں نے نکلنا بار ہا چاہا مگر کہاں
جب زندگی یہ درد کی موجوں کی زد میں تھی
دریا کے بیچ بیچ کنارا ہوا وہاں
اس زیست کے اندھیروں سے مایوس کب ہوں میں
صحنِ وفا میں چاند کی تنویر تھی جواں
وشمہ یہ وصل یار کے سب خواب چھوڑ کر
دل کی زمیں پہ ہجر کو جاگیر ہے جہاں