میں تیرے سامنے اور تو میرے سامنے
گزرے یوں زندگی ، اور کیا چاہیے
نکلیں کسی انجان سفر پہ ہم دونوں
مل نہ پائے منزل ، اور کیا چاہیے
موسم ہو سہانا چوٹی ہو پہاڑ کی
نہ ہو کوئی تیسرا ، اور کیا چاہیے
تیرا میرا ساتھ ہو ہر طرف برسات ہو
ساحل ہو سمندر کا ، اور کیا چاہیے
پوری نہیں ہوتی ہر چاہت ہر انسان کی
مل جائے تو مجھے ، اور کیا چاہیے
مانے گا نہیں دنیا کی کبھی بھی کاتب
مانا ہے مجھے یار نے ، اور کیا چاہیے