موند لو آنکھیں
سنگ ھمدم پل دو پلکو
خراماں خراماں چلو
آس کےچاند کے گھر کے پیچھے
آرزوؤں کی جھیل میں
بکاء نور وفا کی تتلیوں کے پروں سے چمٹے
منافقت کے پیڑ پہ سجے پھول سارے روند کر
آو نا
طلسماتی دنیا کے رنگ سارے چوم کر
وجود بے ضرر کو
مقدس اوراق کی مانند
سونپ دیں خود پرستی
حق پرستی کے جزدان میں