وفا کی راجدھانی سے، کبھی اپنی جوانی سے
یہ دنیا جلتی رہتی ہے تری میری کہانی سے
تری دنیا میں آ جاؤں ،ترے اندر سما جاؤں
مچا دوں دنیا میں ہلچل فقط شعلہ بیانی سے
میں اب بھی یاد میں اس کی ندی نالے بناتی ہوں
ابھی بھی خوشبو آتی ہے مجھے نہروں کے پانی سے
کبھی ملتے نہیں بچھڑے ہوئے دریا سمندر سے
کبھی آتے نہیں گزرے زمانے زندگانی کے
مری آنکھوں کی دنیا کو وہ کیسے بھول سکتا ہے
محبت کے زمانے تھے سنہرے ، شادمانی کے
مری غزلوں کے خدوخال سب اس نے بنائے ہیں
اسی کے ہاتھ سے مہکے شگوفے رات رانی کے
غموں کے شاخسانے ہیں ، جدائی کے بہانے ہیں
بچا کچھ بھی نہیں وشمہ محبت کی نشانی کے