وہ مجھ سے دور پریشاں دکھائی دیتا ہے
جو میرے خوابوں میں حیراں دکھائی دیتا ہے
فریب کھا کے محبت کا شہر چھوڑ گیا
وہ میرا اپنا ہے ، ناداں دکھائی دیتا ہے
بنا وہ عشق الہٰی نماز میں ہے کھڑا
مگر صفوں میں نمایاں دکھائی دیتا ہے
ملی نہ اس کو پزیرائی اس زمانے میں
جو شخص فن کا گلستاں دکھائی دیتا ہے
ہوا تھا بردہ فروشوں کے ہاتھوں جو اغوا
وہ بھیک مانگتا انساں دکھائی دیتا ہے
ہمیشہ وصل کی گھڑیاں کبھی نہیں رہتیں
مگر وفا کا وہ درباں دکھائی دیتا ہے
میں اپنی ذات میں خوش ہوں بہت مگر وشمہ
وہ اپنی ذات میں شاداں دکھائی دیتا ہے