کوئی پیغام تو شعروں میں سنائی دے گا
مجھ کو لگتا ہے وہ پھر آج دکھائی دے گا
ایسے کِھلتے ہیں بھلا پھول کسی اور نگر
پیڑ گلشن کا جو آنگن میں دہائی دے گا
میں تو مخلص ہوں مرا کام دعائیں دینا
وہ تو دشمن ہے تجھے روز برائی دے گا
آج دربار میں آئے ہو تو سچ کہہ ڈالو
میرے اس فعل کی پھر کون صفائی دے گا
جھڑ گئے اب تو مری زیست کے بال و پر
مرے صیّاد مجھے کب تو رہائی دے گا
تو جو مل جائے تو جنت کی بشارت وشمہ
ورنہ برزخ سا مرے گھر میں دکھائی دے گا