کچھ بھی نہیں ہے ساغر و مینا ، نہ جام میں
پنہاں ہے لطفِ زندگی شب کو قیام میں
جتنی ہے تیرے پیار میں روشن جبیں مری
اتنی کہاں ہے روشنی ماہِ تمام میں
اہلِ جنوں میں پہلی سی شورش نہیں ہے اب
رہنے لگی ہے اب کمی کچھ اہتمام میں
آنکھوں کے خشک ہو گئے سوتے میں کیا کروں
اب زندگی کے غم کہاں پینے کو جا م میں
کیسے دلاؤں وقت کے منصف کو اب یقیں
لغزش ہے جب یہ میرے ہی ہر ایک گام میں
سچ ہے یہی کہ شب کے مقابل ہے آئینہ
دیکھو نہ آفتاب کو یوں وقت شام میں
یہ ہے کسی کی شیریں مقالی کا معجزہ
بکھری ہوئی مٹھاس ہے وشمہ کلام میں