آج پھر وہ ہی خواب آیا ہے
جسم و جاں پر عزاب آیا ہے
عالمِ کیف کے مدرسے سے
کوئی پڑھنے کتاب آیا ہے
دل کا مے خانہ کھل اٹھا میرا
کون یہ مہتاب آیا ہے
جس کی راہوں میں نظر خیرہ تھی
کرنے دل کا حساب ایا ہے
رقص حیرت کا دیکھنے شاہد
ڈالِ دل پر گلاب آیا ہے
حوصلہ دینے تجھ کو پھر وشمہ
دیکھ انکھوں سے آب آیا ہے