زیست کے ساتھ تجربہ بھی نہیں
اور اس جیسا حوصلہ بھی نہیں
تیری یادیں ہی میرا مسکن ہیں
پھر بھی تشہیر ہوں صلہ ہی نہیں
ڈوب جائے نہ یاد کا منظر
آنکھ میری میں ڈوبتا ہی نہیں
ساری دنیا ہے بے خبر مجھ سے
تیرا میرا کوئی گلہ ہی نہیں
چشمِ افلاک دیکھتی ہے مجھے
اور ترے ساتھ رابطہ بھی نہیں
میرے دل کو وہ کر گیا گھائل
تیری یادوں کا سلسلہ ہی نہیں
تیری آنکھوں کی مستیاں پا کے
ڈھیر ہوتے ہی راستہ ہی نہیں
تیری خواہش میں گر گئی ہوں یہاں
تیری خواہش میں فیصلہ ہی نہیں
جب سے تیری میں ہوگئی وشمہ
میرا جیون سے رابطہ ہی نہیں