گفتگو ہر کسی کی سنتا ہے
دل مگر آپ ہی کی سنتا ہے
گونجتے ہیں سماعتوں میں آپ
دل کہاں پھر کسی کی سُنتا ہے
یوں ہی خاموش تو نہیں لوگو!
کون اُس آدمی کی سنتا ہے
اس کو خوش خبریوں پہ اندیشے
وہ بس آزردگی کی سنتا ہے
کچھ تو شاعر سے بھی کلام جناب!
ہر کوئی شاعری کی سنتا ہے