فریب نظر تابندگیٴحسن کو اور بڑھا
گرد زمانہ چہرے سے اڑ جا
وقت کی راھگزر کے آثار ھیں رخ پر
اے وقت تو کہیں رستہ بدل جا
شبنم سے دھل کے پھول نکھرے جیسے
اے حسین خواب تو بھی نکھر جا
چاندنی میں چمکتا ہے سنگ مرمر کا تاج
تو ممتاز کی طرح دبے پاوٴں چلی آ
خزاں سی اداسی ہے چاروں طرف
تو رنگینی بہار بن کے چلی آ
میری نظریں تراشیں پتھر کو اسطرح
تو مر مر کی سلوں سے نکل کر چلی آ