دل میں تیری محبت کا دیپ جلا رکھا ہے
روح اور جسم کے رشتے کو سانسوں میں الجھا رکھا ہے
جب سےبخشا ہے تیری چاہت نے مجھےشیشے سا مزاج
تب سے ہر شخص نے ہاتھ میں پتھر اٹھا رکھا ہے
جلوہ گر ہو رہیں ہیں زمانے میں تیری حشر سامانیاں
جب سے تم نے چہرے سے نقاب ہٹا رکھا ہے
کوئ پوچھ نہ لے مجھ سے مری محبت کا آفسانہ
اسی ڈر سے خود کو دنیا سے جدا رکھا ہے
شاہد وہ مل ہی جاے مجھے میری عبادت کے عوذ سلمان
اسی لیے خود کو سجدے میں جھکا رکھا ہے