منہ سے نکلی تو کہاں بات چلی جانے کو
بات ہی بات میں پھر بات کو سلجھانے کو
وہ کہیں خواب میں پوشیدہ کوئی خواب سہی
دیر تک درد دبایا ہی نہیں پانے کو
حرف مہمل سا کوئی ہاتھ پہ اس کے رکھ دو
قحط کیسا ہے کہ ہر سانس کو آ نے کو
پھینک آنکھوں کو کسی جھیل کی گہرائی میں
بت کوئی سوچ کہ آوارہ سا اٹھانے کو
شہر ملبوس میں کیوں اتنا برہنہ رہیے
کوئی چھت یا کوئی دیوار ہی چڑھانے کو
حال دل اُس کو سنانے کا ارادہ وشمہ
دل میں پھر بھی ہے یہ تصویر بتاں لانے کو