میں ہر رت میں نغمہ گر رہا
یہ الگ بات کہ چشم تر رہا
سارے زمانے کے دکھ جھیلنے کے بعد
دنیا نے کہا بڑا دیدہ ور رہا
سیکھا نہ ہم نے دل جیتنے کا فن
اس فن میں تا عمر بے ہنر رہا
شہر آرزو کے اجڑنے کے بعد بھی
پنپتے امید کا کلیجے میں گھر رہا
تو نہیں تیرا پرتو ہی سہی
چاہتوں کے سفر میں شریک سفر رہا
منزلوں کی سرابیں تو بہت ملیں
فقط تیرا نشان راہ ہمیں معتبر رہا
ساری عمر گزار کر یہ پتہ چلا
زندگی بھر ہیکل خود سے بے خبر رہا