پھر کوئی بھی دنیا میں قیامت نہیں دیکھی
جب رسمِ محبت میں بغاوت نہیں دیکھی
اک چہرہ جو اب میری بھی آنکھوں میں مکیں ہے
رہتا ہے تصور میں ، شباہت نہیں دیکھی
وہ جھوٹ سجائے ہوئے ہونٹوں پہ ہے سچا
مجھ موردِ الزام کی نیت نہیں دیکھی
قائم ہے جو برسوں سے مرے دل کی زمیں پر
اس امن کی بستی پہ مصیبت نہیں دیکھی
اک لمحہ مسرت کا یہ چاہت کا فسوں تھا
اور دشتِ طلب میں بھی عنایت نہیں دیکھی
وہ میری عبادت کو بھی ٹھکرائے گا اک دن
جب پیار میں سجدوں کی عقیدت نہیں دیکھی
وشمہ میں محبت کے سپاہی پہ ہوں قرباں
جس نے مری دنیا میں قیامت نہیں دیکھی