پیار میں کوئی شرطین ھزار رکھتا ھے۔
اچھاکمبخت دل پر اپنے اعتبار رکھتا ھے۔
غموں کی اپنے یہاں چاندی لگی ھے اور
وہ دل مزید پر اپنے بوجھ بار رکھتا ھے۔
حیف ایسی ضد پر جو کہیں کا نہ چھوڑے۔
خاک ایسے مدے پر جو شرم سار رکھتا ھے۔
اس کی اک جھلککا مشتاق ھے ادھر دل
اور وہ چشم پوشی کیے اختیار رکھتا ھے۔
یوں تو غیروں کی پرواہ نہیں تھی ہم کو۔
مگر کوئی دوست بن کر دغا یار رکھتا ھے۔
کہہ دو زمانے سے کہ بھروسہ رکھے ہم پر۔
بس تھوڑا صبر کر لے اگر اعتبار رکھتا ھے۔
میں کر دوں اس کو یار جدا خود سے ؟
وہ جو زندگی پر میری ہر اختیار رکھتا ھے !۔
کیوں عدو کی بات کو اتنی اھمیت دیتا ھے؟
کیوں کسی انجانے پر اتنا اعتبار رکھتا ھے ؟
لے اب تیرا خدا ہی حافظ ھے ۔
سنا ھے تو دشمن پر سارا انحسار رکھتا ھے۔