چڑھ گیا قرض تھکن رات کو گھر مانگتی ہے
نوکری ایسی لگی شام و سحر مانگتی ہے
آج کل دوست بھی نہیں ملتے یہاں پر مخلص
آج کل دوستی بھی جان و جگر مانگتی ہے
زندگی بھر رہوں گا یار کنوارہ ہی میں
اس لیے شادی نہیں ہوئی ہنر مانگتی ہے
روز کرتا ہوں مسافت نہیں مٹتی ہے بھوک
نوکری روز نیا تازہ سفر مانگتی ہے
اتنی دولت کہاں سے لاؤں تجارت کے لیے
اب تجارت بھی بہت پیسہ ادھر مانگتی ہے
بھوک بھی باز نہیں آتی بنا روٹی کے
کہتا ہوں پاس نہیں آٹا مگر مانگتی ہے
میرے حالات پہ روتا ہے زمانہ شہزاد
زندگی بھی ہے خفا موت اگر مانگتی ہے