ہم نے پھولوں کی طرح خود کو کھلا کر رکھا
ہم زمیں کے تھے ربطہ ہوا سے رکھا
ہم تیرے درد کو سینے میں لیے پھرتے ہے
سلسلہ ہم نے دعاوں کا خدا سے رکھا
ہم صدا دے گے تولہجے میں چاہت اٹھے گی
تھا وہ خاموش تعلق جو سدا سے رکھا
ناداں ہوں اٹھا لائی میں آب حیات اپنا
اس شہر کے پرور دہ زہر اٹھا سے رکھا
کبھی گزرا تو دل سے تیرا نہ کچھ محسوس ہوا
کبھی تو آواز ہو بھی ایسی کہ جدا سے رکھا
ہم نے دیکھا ہے جبیں سائی کئے آنکھوں سے
وشمہ جی سب نے ہی دامن کو پھیلا رکھا ہے