Poetries by M Usman Jamaie
غزل۔۔۔۔۔۔۔آرزو اب دل ہی میں رہنا، کچھ نہیں کہنا آرزو اب دل ہی میں رہنا، کچھ نہیں کہنا
خواب لہو ہوجانا بہنا، ، کچھ نہیں کہنا
خواہش برف کا پیکر ہوجا، اندر کھوجا
ان پر مشکل تیرا سہنا، ، کچھ نہیں کہنا
طلب کوچپ کی چادر دے یا گلہ گھونٹ دے
اسے تو لفظ آوازنہ پہنا، ، کچھ نہیں کہنا
اے دل آرزو حسرت کرلے، خاموشی کو عادت کرلے
ڈوب اندھیرے میں تو گہنا، ، کچھ نہیں کہنا M Usman Jamaie
خواب لہو ہوجانا بہنا، ، کچھ نہیں کہنا
خواہش برف کا پیکر ہوجا، اندر کھوجا
ان پر مشکل تیرا سہنا، ، کچھ نہیں کہنا
طلب کوچپ کی چادر دے یا گلہ گھونٹ دے
اسے تو لفظ آوازنہ پہنا، ، کچھ نہیں کہنا
اے دل آرزو حسرت کرلے، خاموشی کو عادت کرلے
ڈوب اندھیرے میں تو گہنا، ، کچھ نہیں کہنا M Usman Jamaie
ہمارا رشتہ دل ہی کا نہیں بندھن
درد کا بھی رشتہ ہے
وقت کی مسافت میں
ہوش وآگہی کے اُس اولیں پڑاؤ پر
تنہا رہ گئی تھی تو
تنہا رہ گیا تھا میں
خود کو ڈھونڈتی تھی تو
خود کو ڈھونڈتا تھا میں
سارے عام سے رشتے
صرف نام تھے رشتے
تیرے اور مرے ناتے
تیرے اور مرے رشتے
یہ ہمارا رشتہ ان ناتمام رشتوں کی
تار تار رشتوں کی
آگہی کا رشتہ ہے
چھت تھی اور دیواریں
گھر کہاں ملا ہم کو
اجنبی دیاروں میں روز وشب بِتانے کا
بس تھا آسرا ہم کو
جھیلا ہم نے اپنوں میں دردِناشناسائی
ایک اجنبی سے یہ اجنبی کا رشتہ ہے
درد وکرب کا رشتہ ٹوٹ کیسے سکتا ہے
انگلیوں پہ ہیں میری
تیری آنکھ کے آنسو
اشک میری آنکھوں کے ہیں تری ہتھیلی پر
ہاتھ کیسے چھوٹے گا
چھوٹ کیسے سکتا ہے
M Usman Jamaie
درد کا بھی رشتہ ہے
وقت کی مسافت میں
ہوش وآگہی کے اُس اولیں پڑاؤ پر
تنہا رہ گئی تھی تو
تنہا رہ گیا تھا میں
خود کو ڈھونڈتی تھی تو
خود کو ڈھونڈتا تھا میں
سارے عام سے رشتے
صرف نام تھے رشتے
تیرے اور مرے ناتے
تیرے اور مرے رشتے
یہ ہمارا رشتہ ان ناتمام رشتوں کی
تار تار رشتوں کی
آگہی کا رشتہ ہے
چھت تھی اور دیواریں
گھر کہاں ملا ہم کو
اجنبی دیاروں میں روز وشب بِتانے کا
بس تھا آسرا ہم کو
جھیلا ہم نے اپنوں میں دردِناشناسائی
ایک اجنبی سے یہ اجنبی کا رشتہ ہے
درد وکرب کا رشتہ ٹوٹ کیسے سکتا ہے
انگلیوں پہ ہیں میری
تیری آنکھ کے آنسو
اشک میری آنکھوں کے ہیں تری ہتھیلی پر
ہاتھ کیسے چھوٹے گا
چھوٹ کیسے سکتا ہے
M Usman Jamaie
مت گھبراؤ نہ مت گھبراؤ نا
ایسی بھیانک باتیں کرکے
ہمیں ڈراؤ نہ
مت گھبراؤ نا
تم نے کیسی کیسی مشکل ہنس کر جھیلی ہے
کتنی ہمت سے تم نے ہر آفت سہ لی ہے
کیسی ہمت تم نے پائی، پھر بتلاؤ نا
مت گھبراؤ نا
سچی سچی بولو کچھ تو بدلے ہیں حالات
چین ملا ہے تھوڑا، کچھ تو ہوئے ہیں کم صدمات
چُپ چُپ ،گم سم کیوں ہو تم کچھ تو فرماؤ نا
مت گھبراؤ نا
کیوں ہو پریشاں تمھارے سب دکھ ہوجائیں گے دور
خوشیوں کا موسم لائے گا چین سکون کا نور
میں بھی ہوں نا ساتھ تمھارے، ہاتھ بڑھاؤ نا
مت گھبراؤ نا
تتلیوں کے پروں پہ ہیں خوشیوں کے پَل
جگنووں کے ماتھے پر ہے تمھارا روشن کل
ان سے دور نہ جاو نا، ان کا ساتھ نبھاؤ نا
مت گھبراؤ نا
M Usman Jamaie
ایسی بھیانک باتیں کرکے
ہمیں ڈراؤ نہ
مت گھبراؤ نا
تم نے کیسی کیسی مشکل ہنس کر جھیلی ہے
کتنی ہمت سے تم نے ہر آفت سہ لی ہے
کیسی ہمت تم نے پائی، پھر بتلاؤ نا
مت گھبراؤ نا
سچی سچی بولو کچھ تو بدلے ہیں حالات
چین ملا ہے تھوڑا، کچھ تو ہوئے ہیں کم صدمات
چُپ چُپ ،گم سم کیوں ہو تم کچھ تو فرماؤ نا
مت گھبراؤ نا
کیوں ہو پریشاں تمھارے سب دکھ ہوجائیں گے دور
خوشیوں کا موسم لائے گا چین سکون کا نور
میں بھی ہوں نا ساتھ تمھارے، ہاتھ بڑھاؤ نا
مت گھبراؤ نا
تتلیوں کے پروں پہ ہیں خوشیوں کے پَل
جگنووں کے ماتھے پر ہے تمھارا روشن کل
ان سے دور نہ جاو نا، ان کا ساتھ نبھاؤ نا
مت گھبراؤ نا
M Usman Jamaie
3نومبر کے حوالے سے دو نظمیں (چیف جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے) معروضی حقیقت
..................
تم لوگوں کی خاطر تو
ہر دور کے ہاتھوں میں
خنجر ہیں یا بھالے ہیں
یا زہر کے پیالے ہیں
تم لوگوں کی قسمت میں
بوسے ہیں یہودا کے
اور شہر ہیں کوفہ سے
مقتل ہیں، صلیبیں ہیں
پھر رسمِ پرستش ہے
اور بین ہیں نالے ہیں
................................................
نہیں
.....
نہیں اک لفظ تھا
ہاں تھا
لغت کے آخری پَنوں میں
ساکت، نیم جاں
ہونے پہ شرمندہ
فقط اک لفظِ ناکارہ
بڑی مدت کا دُھتکارا ہوا
گویا کوئی لوگوں کا ٹھکرایا ہوا
بدکار، آوارہ
دلوں میں گونجتا تھا پر زباں تک آتے آتے
ایک سہمی، مضمحل سی ہاں میں ڈھلتا تھا
تڑپ رہتا تھا سینوں میں
لبوں سے کب نکلتا تھا
مگر یہ تم ہو
تم
جس نے
لغت کے آخری پَنوں پہ ساکت نیم جاں
اک لفظ کو پھر زندگی دے دی
نہیں کے شہرِ تیروتار کو وہ روشنی دے دی
کہ جس کی ضو میں
اک جابر کے سب تیور نظر آئے
بنے دست مسیحائی تھے جو خنجر نظر آئے
سبھی وہ، راہ زن ہوتے ہیں جو، رہبر نظر آئے
”نہیں“ اک قصر فرعونی میں جاکے برملا کہنا!
فقط تم کو یہاں زیبا ہے حرف لاالہ کہنا
M Usman Jamaie
..................
تم لوگوں کی خاطر تو
ہر دور کے ہاتھوں میں
خنجر ہیں یا بھالے ہیں
یا زہر کے پیالے ہیں
تم لوگوں کی قسمت میں
بوسے ہیں یہودا کے
اور شہر ہیں کوفہ سے
مقتل ہیں، صلیبیں ہیں
پھر رسمِ پرستش ہے
اور بین ہیں نالے ہیں
................................................
نہیں
.....
نہیں اک لفظ تھا
ہاں تھا
لغت کے آخری پَنوں میں
ساکت، نیم جاں
ہونے پہ شرمندہ
فقط اک لفظِ ناکارہ
بڑی مدت کا دُھتکارا ہوا
گویا کوئی لوگوں کا ٹھکرایا ہوا
بدکار، آوارہ
دلوں میں گونجتا تھا پر زباں تک آتے آتے
ایک سہمی، مضمحل سی ہاں میں ڈھلتا تھا
تڑپ رہتا تھا سینوں میں
لبوں سے کب نکلتا تھا
مگر یہ تم ہو
تم
جس نے
لغت کے آخری پَنوں پہ ساکت نیم جاں
اک لفظ کو پھر زندگی دے دی
نہیں کے شہرِ تیروتار کو وہ روشنی دے دی
کہ جس کی ضو میں
اک جابر کے سب تیور نظر آئے
بنے دست مسیحائی تھے جو خنجر نظر آئے
سبھی وہ، راہ زن ہوتے ہیں جو، رہبر نظر آئے
”نہیں“ اک قصر فرعونی میں جاکے برملا کہنا!
فقط تم کو یہاں زیبا ہے حرف لاالہ کہنا
M Usman Jamaie
اے قضا! قضا تجھ پر بڑے آسان ہیں ہم
تماشے کا ترے سامان ہیں ہم
تو بازاروں میں، چوراہوں پہ ہم سے کھیلتی ہے
گھر آنگن میں، کبھی راہوں پہ ہم سے کھیلتی ہے
ہمارا ماس تجھ کو اس قدر کیوں بھاگیا ہے
ترا جبڑا ہمارے کتنے بچے کھاگیا ہے
ہماری گردنوں کو تونے ڈائن یوں پیا ہے
ترے ہونٹوں سے اور باچھوں سے خوں بہنے لگا ہے
....................
زمیں پر تجھ کو ایسی کیا کمی ہے
فضاؤں میں جو تو منڈلا رہی ہے
بہت سے خواب ہیں آنکھوں میں ان کی
بہت سے کام رستہ دیکھتے ہیں
درودہلیز راہیں تک رہے ہیں
گھروں کے بام رستہ دیکھتے ہیں
انھیں پیاروں کے پیکر دیکھنے دے
انھیں اک بار تو گھر دیکھنے دے
ٹھہرجا، لوٹ جا، جانے دے ان کو
زمیں پر تو اُتر آنے دے ان کو
سو چوراہوں پہ بازاروں میں مقتل سج رہے
تماشے کا ترے سامان ہیں ہم
M Usman Jamaie
تماشے کا ترے سامان ہیں ہم
تو بازاروں میں، چوراہوں پہ ہم سے کھیلتی ہے
گھر آنگن میں، کبھی راہوں پہ ہم سے کھیلتی ہے
ہمارا ماس تجھ کو اس قدر کیوں بھاگیا ہے
ترا جبڑا ہمارے کتنے بچے کھاگیا ہے
ہماری گردنوں کو تونے ڈائن یوں پیا ہے
ترے ہونٹوں سے اور باچھوں سے خوں بہنے لگا ہے
....................
زمیں پر تجھ کو ایسی کیا کمی ہے
فضاؤں میں جو تو منڈلا رہی ہے
بہت سے خواب ہیں آنکھوں میں ان کی
بہت سے کام رستہ دیکھتے ہیں
درودہلیز راہیں تک رہے ہیں
گھروں کے بام رستہ دیکھتے ہیں
انھیں پیاروں کے پیکر دیکھنے دے
انھیں اک بار تو گھر دیکھنے دے
ٹھہرجا، لوٹ جا، جانے دے ان کو
زمیں پر تو اُتر آنے دے ان کو
سو چوراہوں پہ بازاروں میں مقتل سج رہے
تماشے کا ترے سامان ہیں ہم
M Usman Jamaie
یک جہتی کے نشاں سمندر، روشنی، مٹّی، ہوائیں
پرندے ، آسماں، خوشبو، گھٹائیں
یہ بنجارے ، یہ پاوندے، یہ جپسی
ہے”دین شہریت“ٹھوکرمیں جن کی
ہمارے دور اول کے امیں ہیں
ہمارے ایک ہونے کا یقیں ہیں
یہ باغی قومیت کے مِلّتوں کے
یہ منکر سرحدوں کی حرمتوں کے
انھیں انکار تعظیم وطن سے
زمیں کو بانٹ دینے کے چلن سے
من وتو کے سبھی نعروں کے دشمن
تمھارے قومی گہواروں کے دشمن
وحی ہیں، یہ حدیث معتبر ہیں
بنی آدم کے فردا کی خبر ہیں
M Usman Jamaie
پرندے ، آسماں، خوشبو، گھٹائیں
یہ بنجارے ، یہ پاوندے، یہ جپسی
ہے”دین شہریت“ٹھوکرمیں جن کی
ہمارے دور اول کے امیں ہیں
ہمارے ایک ہونے کا یقیں ہیں
یہ باغی قومیت کے مِلّتوں کے
یہ منکر سرحدوں کی حرمتوں کے
انھیں انکار تعظیم وطن سے
زمیں کو بانٹ دینے کے چلن سے
من وتو کے سبھی نعروں کے دشمن
تمھارے قومی گہواروں کے دشمن
وحی ہیں، یہ حدیث معتبر ہیں
بنی آدم کے فردا کی خبر ہیں
M Usman Jamaie
طلب اس کی کتنی معصوم تھی طلب اس کی
کس قدر دل گُداز خواہش تھی
”آج کے دن تمھارے ہاتھوں میں
میری خاطر ہو اک گلاب کا پھول
اور تمھارے لبوں پہ اک بوسہ
میری آنکھوں پہ ثبت ہونے کو“
اس نے جس دم کہا اسی لمحے
نارسائی کا خار ایسا چبھا
میرے ہاتھوں سے خون رِسنے لگا
تشنگی یوں بڑھی کے ہونٹوں پر
پیاس کا صحرا آکے بسنے لگا
M Usman Jamaie
کس قدر دل گُداز خواہش تھی
”آج کے دن تمھارے ہاتھوں میں
میری خاطر ہو اک گلاب کا پھول
اور تمھارے لبوں پہ اک بوسہ
میری آنکھوں پہ ثبت ہونے کو“
اس نے جس دم کہا اسی لمحے
نارسائی کا خار ایسا چبھا
میرے ہاتھوں سے خون رِسنے لگا
تشنگی یوں بڑھی کے ہونٹوں پر
پیاس کا صحرا آکے بسنے لگا
M Usman Jamaie
تمھاری تصویر دیکھ کر ............ یہ آنکھیں اور یہ چہرہ
سویرے کی فضا جیسے
وضو زم زم سے کرکے آئی ہو کوئی شعاع جیسے
کُھلا جنت کا دروازہ
سکونِ دائمی کی ہورہی ہو ابتدا جیسے
مجسم ہو حیا جیسے
کسی دیوی کے بُت میں زندگی یکلخت کروٹ لے
وہ کربِ عشق میں ہوجائے یک دم مبتلا جیسے
محبت ضبط کے زنداں میں روتی اور سسکتی ہو
کمالِ ضبط، سوزِ عشق سے زورآزما جیسے
غضب معصومیت، کردار جیسے ہو فرشتوں کا
عجب پاکیزگی، ہو چاندنی میں موتیا جیسے
ہے پیشانی، کہ وقتِ فجر ہو محراب مسجد کی
یہ آنکھیں، راہ جنت کی دکھاتا ہو دیا جیسے
بچھی صحن حرم کی دھوپ رخساروں پہ اتری ہے
لبوں کا ذکر کیا کیجے، عبادت میں دعا جیسے
تقدس چشم وچہرے کا اتر آیا ہے لفظوں میں
سخن پارہ یہ میرا ہوگیا حمدوثناء جیسے
M Usman Jamaie
سویرے کی فضا جیسے
وضو زم زم سے کرکے آئی ہو کوئی شعاع جیسے
کُھلا جنت کا دروازہ
سکونِ دائمی کی ہورہی ہو ابتدا جیسے
مجسم ہو حیا جیسے
کسی دیوی کے بُت میں زندگی یکلخت کروٹ لے
وہ کربِ عشق میں ہوجائے یک دم مبتلا جیسے
محبت ضبط کے زنداں میں روتی اور سسکتی ہو
کمالِ ضبط، سوزِ عشق سے زورآزما جیسے
غضب معصومیت، کردار جیسے ہو فرشتوں کا
عجب پاکیزگی، ہو چاندنی میں موتیا جیسے
ہے پیشانی، کہ وقتِ فجر ہو محراب مسجد کی
یہ آنکھیں، راہ جنت کی دکھاتا ہو دیا جیسے
بچھی صحن حرم کی دھوپ رخساروں پہ اتری ہے
لبوں کا ذکر کیا کیجے، عبادت میں دعا جیسے
تقدس چشم وچہرے کا اتر آیا ہے لفظوں میں
سخن پارہ یہ میرا ہوگیا حمدوثناء جیسے
M Usman Jamaie
اے مری جان سنو! اے مری جان، سنو! خود کو سجاتی کیوں ہو
حُسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
ان حسیں ہونٹوں کو سرخی کی ضرورت کب ہے
نین بھونرے سے یہ کاجل کے نہیں حاجت مند
گُل سے رخساروں کو رنگینی کی حاجت کب ہے
کسی کنگن کسی گجرے کی تمھیں کیوں ہے طلب؟
جانِ من تم تو گلابوں سے بنا پیکر ہو
جو ہو خوش بو اسے خوش بو کی طلب کیوں کرہو
اپنے معصوم سے چہرے کو ذرا دیکھو تو
کیا کرے گا کوئی سنگھار اسے اے مری جان سنو!
محمد عثمان جامعی
اے مری جان، سنو! خود کو سجاتی کیوں ہو
حُسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
ان حسیں ہونٹوں کو سرخی کی ضرورت کب ہے
نین بھونرے سے یہ کاجل کے نہیں حاجت مند
گُل سے رخساروں کو رنگینی کی حاجت کب ہے
کسی کنگن کسی گجرے کی تمھیں کیوں ہے طلب؟
جانِ من تم تو گلابوں سے بنا پیکر ہو
جو ہو خوش بو اسے خوش بو کی طلب کیوں کرہو
اپنے معصوم سے چہرے کو ذرا دیکھو تو
کیا کرے گا کوئی سنگھار اسے اور حسیں
یہ دیوالی سی درخشاں، یہ چمکتی آنکھیں
چاند سے چہرے پہ تاروں سی دمکتی آنکھیں
جس سے کچھ اور یہ چمکیں کہیں سرمہ وہ نہیں
تو مری جان کہو! خود کو بناتی کیوں ہو
حسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
یوں بھی تم کو لب وعارض کے سوا چاہتا ہوں
میں تمھیں جسم کی خواہش سے ورا چاہتا ہوں
مری خاطر نہ سنوارو نہ سجاؤ خود کو
میں تمھیں رسموں رواجوں سے جدا چاہتا ہوں
اور حسیں
یہ دیوالی سی درخشاں، یہ چمکتی آنکھیں
چاند سے چہرے پہ تاروں سی دمکتی آنکھیں
جس سے کچھ اور یہ چمکیں کہیں سرمہ وہ نہیں
تو مری جان کہو! خود کو بناتی کیوں ہو
حسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
یوں بھی تم کو لب وعارض کے سوا چاہتا ہوں
میں تمھیں جسم کی خواہش سے ورا چاہتا ہوں
مری خاطر نہ سنوارو نہ سجاؤ خود کو
میں تمھیں رسموں رواجوں سے جدا چاہتا ہوں
M Usman Jamaie
حُسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
ان حسیں ہونٹوں کو سرخی کی ضرورت کب ہے
نین بھونرے سے یہ کاجل کے نہیں حاجت مند
گُل سے رخساروں کو رنگینی کی حاجت کب ہے
کسی کنگن کسی گجرے کی تمھیں کیوں ہے طلب؟
جانِ من تم تو گلابوں سے بنا پیکر ہو
جو ہو خوش بو اسے خوش بو کی طلب کیوں کرہو
اپنے معصوم سے چہرے کو ذرا دیکھو تو
کیا کرے گا کوئی سنگھار اسے اے مری جان سنو!
محمد عثمان جامعی
اے مری جان، سنو! خود کو سجاتی کیوں ہو
حُسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
ان حسیں ہونٹوں کو سرخی کی ضرورت کب ہے
نین بھونرے سے یہ کاجل کے نہیں حاجت مند
گُل سے رخساروں کو رنگینی کی حاجت کب ہے
کسی کنگن کسی گجرے کی تمھیں کیوں ہے طلب؟
جانِ من تم تو گلابوں سے بنا پیکر ہو
جو ہو خوش بو اسے خوش بو کی طلب کیوں کرہو
اپنے معصوم سے چہرے کو ذرا دیکھو تو
کیا کرے گا کوئی سنگھار اسے اور حسیں
یہ دیوالی سی درخشاں، یہ چمکتی آنکھیں
چاند سے چہرے پہ تاروں سی دمکتی آنکھیں
جس سے کچھ اور یہ چمکیں کہیں سرمہ وہ نہیں
تو مری جان کہو! خود کو بناتی کیوں ہو
حسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
یوں بھی تم کو لب وعارض کے سوا چاہتا ہوں
میں تمھیں جسم کی خواہش سے ورا چاہتا ہوں
مری خاطر نہ سنوارو نہ سجاؤ خود کو
میں تمھیں رسموں رواجوں سے جدا چاہتا ہوں
اور حسیں
یہ دیوالی سی درخشاں، یہ چمکتی آنکھیں
چاند سے چہرے پہ تاروں سی دمکتی آنکھیں
جس سے کچھ اور یہ چمکیں کہیں سرمہ وہ نہیں
تو مری جان کہو! خود کو بناتی کیوں ہو
حسن معصوم کو میک اپ میں چھپاتی کیوں ہو
یوں بھی تم کو لب وعارض کے سوا چاہتا ہوں
میں تمھیں جسم کی خواہش سے ورا چاہتا ہوں
مری خاطر نہ سنوارو نہ سجاؤ خود کو
میں تمھیں رسموں رواجوں سے جدا چاہتا ہوں
M Usman Jamaie
ایک اَدا تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
بَتارہے ہو مسرّت اُدھار لے لی ہے
یہ کہہ رہے ہو کہ اے پاپیادہ حیوانو!
بُلند مرتبہ مخلوق ہوگیا ہوں میں
کہ میں نے بینک سے قسطوں پہ کار لے لی ہے
تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
کہ جیسے قصر شہنشاہ میں کنیز کا رقص
کہ جیسے دستِ جفا جُو میں تازیانہ ہو
کہ جیسے مے کشی مدہوش ہوکے ناچ اُٹھّے
یا دستِ تیغ زنی دائرے بناتا ہو
تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
ہمارے بَس کے سفر کا مذاق اُڑاتی ہے
سفر کی مشکلیں کچھ اور یہ بڑھاتی ہے
ہوا میں ناچ کے جب دائرے بناتی ہے
ہماری جُہد کی تصویر یہ دکھاتی ہے
M Usman Jamaie
بَتارہے ہو مسرّت اُدھار لے لی ہے
یہ کہہ رہے ہو کہ اے پاپیادہ حیوانو!
بُلند مرتبہ مخلوق ہوگیا ہوں میں
کہ میں نے بینک سے قسطوں پہ کار لے لی ہے
تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
کہ جیسے قصر شہنشاہ میں کنیز کا رقص
کہ جیسے دستِ جفا جُو میں تازیانہ ہو
کہ جیسے مے کشی مدہوش ہوکے ناچ اُٹھّے
یا دستِ تیغ زنی دائرے بناتا ہو
تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
ہمارے بَس کے سفر کا مذاق اُڑاتی ہے
سفر کی مشکلیں کچھ اور یہ بڑھاتی ہے
ہوا میں ناچ کے جب دائرے بناتی ہے
ہماری جُہد کی تصویر یہ دکھاتی ہے
M Usman Jamaie
یوں کرو ایک پھانس چبھتی ہے
اور درد ماضی کے سارے جاگ اٹھتے ہیں
اک خراش آتی ہے
اور گھاؤ وہ سارے
جن کو بھرنے میں ہم نے
مدتیں بِتائی ہیں
پھر سے رِسنے لگتے ہیں
ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں
کرب چبھنے لگتے ہیں
درد کی مسافت میں
اور رہِ اذیت میں
بے ہُشی کی حالت میں
آگہی یہ ہوتی ہے
پھانس یہ شناسا ہے
یہ خراش اپنی ہے
ان شناسا پھانسوں کو
اپنی ان خراشوں کو
اپنا جاننے ہی میں
درد ہے، اذیت ہے
ایک بار رد کردو
عمر بھر کی راحت ہے
M Usman Jamaie
اور درد ماضی کے سارے جاگ اٹھتے ہیں
اک خراش آتی ہے
اور گھاؤ وہ سارے
جن کو بھرنے میں ہم نے
مدتیں بِتائی ہیں
پھر سے رِسنے لگتے ہیں
ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں
کرب چبھنے لگتے ہیں
درد کی مسافت میں
اور رہِ اذیت میں
بے ہُشی کی حالت میں
آگہی یہ ہوتی ہے
پھانس یہ شناسا ہے
یہ خراش اپنی ہے
ان شناسا پھانسوں کو
اپنی ان خراشوں کو
اپنا جاننے ہی میں
درد ہے، اذیت ہے
ایک بار رد کردو
عمر بھر کی راحت ہے
M Usman Jamaie
اعلان چاہے اب ہاتھ کٹیں، سر ہو قلم، لکھیں گے
جو نہ دیوار پہ آئے گا، وہ ہم لکھیں گے
کوئی سچائی پسِ پردہ رہے ناممکن
آئینے عکس دکھائیں گے، قلم لکھیں گے
نہ کوئی طعن، نہ دشنام، نہ کوئی الزام
تم ستم گرہو، تمھیں اہل ستم لکھیں گے
اب کوئی راز کہیں راز نہ رہ پائے گا
رہ نما کوئی دغاباز نہ رہ پائے گا
جن کے اظہار سے عاجز رہے سرگوشی بھی
راز وہ چیخ کی صورت میں سنائی دیں گے
ایک مُدت سے جو منظر تھے فقط پرچھائیں
صاف تصویر کی صورت میں دکھائی دیں گے
جو لہو خاک میں گُم ہوتا رہا برسوں سے
روئے قاتل بنا دھرتی پہ اُبھرآئے گا
نقشِ پا ابھریں گے مٹی پہ لٹیروں کے یوں
ہر کمیں گہ کا نشاں صاف نظر آئے گا
انگلیاں اُٹھیں گی مجبوروں کی، بے خوف وخطر
خونیوں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں کی جانب
ہر نگہ لے کے سوالات کئی اُٹھے گی
پاسبانوں کی طرف، تاج وروں کی جانب M Usman Jamaie
جو نہ دیوار پہ آئے گا، وہ ہم لکھیں گے
کوئی سچائی پسِ پردہ رہے ناممکن
آئینے عکس دکھائیں گے، قلم لکھیں گے
نہ کوئی طعن، نہ دشنام، نہ کوئی الزام
تم ستم گرہو، تمھیں اہل ستم لکھیں گے
اب کوئی راز کہیں راز نہ رہ پائے گا
رہ نما کوئی دغاباز نہ رہ پائے گا
جن کے اظہار سے عاجز رہے سرگوشی بھی
راز وہ چیخ کی صورت میں سنائی دیں گے
ایک مُدت سے جو منظر تھے فقط پرچھائیں
صاف تصویر کی صورت میں دکھائی دیں گے
جو لہو خاک میں گُم ہوتا رہا برسوں سے
روئے قاتل بنا دھرتی پہ اُبھرآئے گا
نقشِ پا ابھریں گے مٹی پہ لٹیروں کے یوں
ہر کمیں گہ کا نشاں صاف نظر آئے گا
انگلیاں اُٹھیں گی مجبوروں کی، بے خوف وخطر
خونیوں، ڈاکوؤں اور راہ زنوں کی جانب
ہر نگہ لے کے سوالات کئی اُٹھے گی
پاسبانوں کی طرف، تاج وروں کی جانب M Usman Jamaie
تیرے نینا کیا بتلائیں سندر ناری کیسے تیرے نین
سب جیون کی تھکن مٹائیں ایسا ان میں چین
جیسے دو جھیلیں ہوں جن میں ڈوب رہی ہو شام
جیسے تھک کر ان آنکھوں میں رات کرے آرام
دو ہیں گہرے کٹورے جن سے چھل چھل چھلکے پریت
دیکھیں یہ جس اور وہاں پر بکھریں سُر سنگیت
جیسے ان میں آن بھرا ہو سونا رنگ سویرا
جیسے دھوپ کی سنگت میں چھاؤں نے ڈالا ڈیرا
کبھی لگے کہ جیسے بیٹھے دو بھنورے کالے ہوں
کبھی لگے تتلی پھولوں کے رنگ بھرے پیالے ہوں
جگمگ جگمگ، پیس کے ہیرے رکھ دیے تشتریوں میں
جھلمل جھلمل، گھول دیے ہیں تارے ان آنکھوں میں
آنگن، جن میں چھم چھم چھم چھم پگھل کے سونا برسے
رم جھم رم جھم کلیوں اور پھولوں کی برکھا برسے
پلکیں اٹھتی ہیں تو کیا روپ نظر آتے ہیں
پلکیں جھکتی ہیں تو نگر سپنوں کے چھپ جاتے ہیں
نینوں سے پی کر مدرا میں ہر پل میں جھوم رہا ہوں
سپنوں میں یہ بھولے بھالے نینا چوم رہا ہوں
M Usman Jamaie
سب جیون کی تھکن مٹائیں ایسا ان میں چین
جیسے دو جھیلیں ہوں جن میں ڈوب رہی ہو شام
جیسے تھک کر ان آنکھوں میں رات کرے آرام
دو ہیں گہرے کٹورے جن سے چھل چھل چھلکے پریت
دیکھیں یہ جس اور وہاں پر بکھریں سُر سنگیت
جیسے ان میں آن بھرا ہو سونا رنگ سویرا
جیسے دھوپ کی سنگت میں چھاؤں نے ڈالا ڈیرا
کبھی لگے کہ جیسے بیٹھے دو بھنورے کالے ہوں
کبھی لگے تتلی پھولوں کے رنگ بھرے پیالے ہوں
جگمگ جگمگ، پیس کے ہیرے رکھ دیے تشتریوں میں
جھلمل جھلمل، گھول دیے ہیں تارے ان آنکھوں میں
آنگن، جن میں چھم چھم چھم چھم پگھل کے سونا برسے
رم جھم رم جھم کلیوں اور پھولوں کی برکھا برسے
پلکیں اٹھتی ہیں تو کیا روپ نظر آتے ہیں
پلکیں جھکتی ہیں تو نگر سپنوں کے چھپ جاتے ہیں
نینوں سے پی کر مدرا میں ہر پل میں جھوم رہا ہوں
سپنوں میں یہ بھولے بھالے نینا چوم رہا ہوں
M Usman Jamaie
بوجھ تو آخر بوجھ ہی ہے نا بوجھ تو آخر بوجھ ہی ہے نا
جسم اور اشیاﺀ ہی تو نہیں بس
بھاری ساماں،
جس کوخود ہی ڈھوۓ جائیں
کیوں یہ ساماں غیر اٹھائیں
خواہش
لفظ
احساس
اور سپنے
طلب خوشی کی
مانگ سکوں کی
شے کی صورت ہوجاتی ہیں
بن جاتی ہیں بھاری پتھر
بس اک زحمت ہوجاتی ہیں
یہ سارے تودے، چٹانیں
آخر کیوں کوئ اور اٹھاۓ
اپنی روح پہ لادے جائیں
بوجھ تو آخر بوجھ ہی ہے نا
M Usman Jamaie
جسم اور اشیاﺀ ہی تو نہیں بس
بھاری ساماں،
جس کوخود ہی ڈھوۓ جائیں
کیوں یہ ساماں غیر اٹھائیں
خواہش
لفظ
احساس
اور سپنے
طلب خوشی کی
مانگ سکوں کی
شے کی صورت ہوجاتی ہیں
بن جاتی ہیں بھاری پتھر
بس اک زحمت ہوجاتی ہیں
یہ سارے تودے، چٹانیں
آخر کیوں کوئ اور اٹھاۓ
اپنی روح پہ لادے جائیں
بوجھ تو آخر بوجھ ہی ہے نا
M Usman Jamaie