Add Poetry

Poetries by Nisar Zulfi

جس سمت میں نے آواز دی جس سمت میں نے آواز دی، اس سمت تو سنا ہے ہوا ہی نہیں
سماعت تو ان کی کمال کی ہے، پر اپنی تو کوئی صدا ہی نہیں
کیا کہوں کیسے بچھڑ گیا تھا، سر راہ ہی جو میں بھٹک گیا تھا
میرے ساتھ جو چلے تھے سب راہزن، مجھے رہبر کوئی ملا ہی نہیں
میں ناکام ہو کے جو مایوس ہوا، بے سبب نہیں وجہ بھی ہے
جس پھول کی خاطر عمر لٹا دی، وہ پھول کبھی پھر کھلا ہی نہیں
میں نے تاریک غار میں جو سورج کو دیکھا، ملا حکم کہ یہ غار چھوڑو
مجھے سزا بھی ملی میرے جرم کے مطابق، یہ سزا تو کوئی سزا ہی نہیں
میرا دل بھی ہے میرے گھر کی مانند، جسے مکیں نے چھوڑا تو پھر نہ لوٹا
ویراں ہوا یوں تیرے جانے کے بعد، کہ کوئی اس میں پھر بسا ہی نہیں
میں عجیب دائرے میں ہوں محو سفر، کہ فاصلہ نہ کٹے بس چلتا ہی رہوں
کس کے قدموں کے نشان دیکھوں، یہاں سے کبھی کوئی گزرا ہی نہیں
سنا تھا وقت لگا دیتا ہے مرہم، اس امید پہ وقت گزارا ہے بہت
اک زخم لگا تھا جو برسوں پہلے، وہ زخم کبھی پھر بھرا ہی نہیں
Nisar Zulfi
کبھی گھر بنا کے خوش ہوئے کبھی گھر بنا کے خوش ہوئے، کبھی گھر جلا کے خوش ہوئے
کبھی خوشیاں اداس کر گئیں، کبھی غم پا کے خوش ہوئے
کوئی ڈھنگ نہیں تھا رہنے کا ہمیں، نہ ہی کوئی ٹھکانہ تھا کبھی
اک نام ہی بس پہچان بنی تھی، سو نام مٹا کے خوش ہوئے
چہرے خود ہی مسکراتے ہیں، جب خوش کوئی ہوتا ہے یہاں
ہم تو سب سے الگ سے ہیں، ہم آنسو بہا کے خوش ہوئے
جب محفلیں بھری بھری سی تھیں، ہم اداس پھرتے رہتے تھے
یہ عجب ہی شوق رہا ہے اپنا، ہم محفلیں لٹا کے خوش ہوئے
جو تنگ کرے بے سبب تمہیں، اسے سزا دینا تو قانون ہے یہاں
ہمیں تنگ کیا بس خود نے ہی، ہم خود کو مٹا کے خوش ہوئے
یادیں ماضی کی تلخ بھی ہیں، یادیں ماضی کی سہانی بھی
کوئی یاد آیا تو کھل اٹھے، کسی کو بھلا کے خوش ہوئے
کبھی سو جائیں تو ٹوٹتا ہے بدن، ایسی پڑی ہے رت جگے کی عادت
بارش میں بھیگیں تو جلتا ہے جسم، ہم آگ میں نہا کے خوش ہوئے
شوق ہمارا زندہ ہے اب تک، کبھی کبھی بلا لیتے ہیں ان کو
وہ ہر بار جھٹلا کے خوش ہوئے، ہم ہر بار بلا کے خوش ہوئے
Nisar Zulfi
اے نوجوانان ارض وطن ہر سمت پھیلا خوف سا
ہر سو کالے بادل ہیں
ہر اور ابھرتا شور سا
ہر جا بہتا لہو کا دریا
ممتا کا کلیجہ دہل رہا
بابا کی آنکھیں خشمگیں
اجڑے سہاگ، سونے آنگن
ڈستی وحشت، کہر اندھیرا
کس کو پکاریں کون سنے
رہبر ہمارے اندھے، بہرے
حق کی زبان کٹ چکی ہے
پھر بھی مقتل سجے سجے سے
بھیڑوں کا بہروپ سجائے ہوئے
پھر رہے ہیں وحشی درندے
کسی کا کلیجہ چھلنی کرتے
کسی کا سہاگ اجاڑتے ہوئے
مہاراج ہمارے پاگل کتے
کسی کے ٹکڑوں پہ پل رہے
کسی کہ در پہ پڑے ہوئے
اپنی ماں کے بیوپاری
بہنوں کی چادریں بیچنے والے
اندھیری غاروں میں بیٹھ کر
سورج کو کوسنے دینے والے
کیا خاک سحر کو سینچیں گے
اور تاروں پر کمند ڈالیں گے
اے نوجوانان ارض وطن!
کیا تمہاری رگوں کا خون بھی
جم گیا ہے جسم میں ہی
نہیں تو اٹھو سنبھالو پرچم
اتار پھینکو طوق غلامی
کہ منتظر ہے قوم ساری
اب تم ہی محمود تم ہی قاسم
نبھاؤ تقاضے، آنکھیں کھولو
گر جینے کی خواہش ہے تم میں
تو سینچ کے دکھاؤ اپنی سحر
کمند اٹھاؤ تاروں پہ ڈالو
افلاک کو کر لو مٹھی میں بند
دکھا دو ظلم کے رہبروں کو
یہ لہو اتنا ارزاں نہیں ہے
یہ قوم اتنی سہل نہیں ہے
Nisar Zulfi
جانے کس حال میں رہتے ہو اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
جانے کس حال میں رہتے ہو
اک مدت پہلے کی سب باتیں
یاد ہیں ابھی تک اسی طرح
ان یادوں سے عکس بن رہا ہوں
کہ ماضی سے حال تراش رہا ہوں
اک مدت پہلے کی بات ہے یہ
وہ نظریں جھکا کے سوچتے رہنا
پھر سوچتے سوچتے مسکرا دینا
معصوم شرارتیں جب انگڑائی لیتیں
تو بات بات پہ قہقہے لگانا
کبھی بے وجہ ہی ہنستے جانا
اور
بے وجہ ہنسی پہ سب کو ہنسانا
کبھی بیٹھے بیٹھے ہی رو دینا
کوئی پیار سے دیکھے تو روٹھ جانا
وہ اپنے آپ میں سمٹے رہنا
چپ چاپ کہیں پہ بیٹھے رہنا
وہ چہرے دیکھ کے قیاس لگانا
وہ انداز دیکھ کے نام دینا
چاہت کے مفہوم سے نا آشنا
محبت کے ذکر پہ بگڑ جانا
پھر زندگی نے رخ بدلا
بس ایک شخص ہی محور بنا
ہر سوچ میں شامل ہو گیا
پھر دن بھر اسے سوچتے رہنا
دن بھر اس سے باتیں کرنا
اسے ہنسا کے خود بھی ہنسنا
اس کے دکھوں پہ رو پڑنا
وہ وعدے ساتھ جینے کے
بچھڑ کے مرنے کی دعائیں کرنا
وہ پل پل اس کی خبر رکھنا
اور
پل پل اپنی خبر دینا
یہ سب تو اب بھی ہے مگر
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
بس ایک قیاس ہے اب
کہ
کس حال میں تم رہتے ہو
اب کوئی شرارت کوئی قہقہہ
ہنسنا ہنسانا، رونا رلانا
سب کچھ چھوڑ چکے ہو تم
اور
ایک ہی یاد ستاتی ہے
جب بیقرار ہوتے ہو تم
تو دن بھر ٹہلتے رہتے ہو
راتوں کو بے چین ہو ہو کر
کروٹیں بدلتے رہتے ہو
ہر آہٹ پہ چونک جاتے ہو
ہر دستک پہ دھڑکن بڑھتی ہے
ہر چہرے کو غور سے تکتے ہو
پھر آنکھوں میں عکس بھرتے ہو
کبھی بے دھیانی میں فرش پر
اک نام لکھتے مٹاتے ہو
جب اپنا ماضی سوچتے ہو
خود
اپنے آپ پہ حیران ہوتے ہو
جب دل بے تاب ہوتا ہے
پھر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
تنہا کمرے میں بند ہو کر
پھر دیر تک کھوئے رہتے ہو
سب سے الگ تنہا تنہا
الجھے الجھے رہتے ہو
یا بے ربط سوچوں میں محو ہو کر
بالوں میں انگلی گھماتے ہوئے
چھت کو گھورتے رہتے ہو
کھلی آنکھوں سے خواب کوئی
اپنے آپ ہی بنتے ہو
ہر خواب میں بس ایک شخص
جو ہر سوچ میں تمہاری شامل ہے
پھر سوچتے سوچتے خوف سے کسی
خیالوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے
وہ خوف جو تمہاری زندگی کو
روگ میں بدل سکتا ہے
پھر دعائیں بہت تم مانگتے ہو
اپنی محبت کو پانے کی
مگر
یہ سب قیاسی باتیں ہیں
جو تراشی ہیں تمھارے ماضی سے میں نے
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
جانے کس حال میں رہتے ہو
Nisar Zulfi
میرا خواب جاں ریزہ ریزہ میں دیر تلک کہیں سویا رہا
اک خواب جاں آنکھوں میں بسا کے
اس نیند کا خمار بھی عجب ہی رہا
ہر سمت بہاریں، ہر سمت خوشیاں
سب چاہنے والے میرے آس پاس
میری خواہش پہ مر مٹنے والے
میں مطمئین ہو کے سوتا ہی رہا
بڑا بھروسہ تھا احباب پہ مجھ کو
اک ہاتھ چھوٹتا اک ہاتھ سنبھالتا
میں ڈگمگاتا پر گرنے نہ پاتا
کٹھن سفر کے بعد بھی
پاؤں پہ آبلہ کوئی نہ ہوتا
یہی سوچتا رہا میں سوتے ہوئے
زمانے کا بوجھ کندھے پہ رکھ کے
میں سر اٹھا کے چلتا رہوں گا
کہ بہت کندھے ہیں سہارے کے لئے
مگر
جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھا
میں اکیلا بے سائبان
نہ کوئی سہارا نہ کوئی شناسا
جو آس پاس تھے سب تماشائی
میں ٹوٹ کے جس کے قدموں میں گرا
سنبھالا نہیں بس ٹھوکر ماری
سنبھلنے کی کوشش خود ہی کی تو
اپنی ہی ٹھوکر سے گر پڑا میں
میرے اپنے وجود کا بوجھ ھی اتنا
نہ سر اٹھے نہ قدم بڑھیں
بچا ہوا ہے میرے پاس کیا
آ کے دیکھو اک بار ذرا
میرا خواب جاں ریزہ ریزہ
میری خواہشیں سب سلگتی ہوئیں
میرے ٹوٹے پر ہاتھوں میں ہیں
میری دم توڑتی حسرتیں
میرا خواب جاں، ریزہ ریزہ
Nisar Zulfi
لوٹ چلو کسی کٹھن سفر کے دوراں
کسی موڑ میں الجھ جاؤ
یا بیاباں میں بھٹک جاؤ
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی سمندر کے سفر پہ نکلو
پھر کشتی اگر ڈولنے لگے
اور نا خدا بھی چھوڑ جائے
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی تپتے ہوئے صحرا میں
تم پیاس کی شدت سے
یا دھوپ کی حدت سے
محروم ابرو آب تڑپو اور
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی برف کی چٹانوں پر
کبھی آگ پر یا کانچ پر
ننگے پاؤں چلنے سے
پیپ رسے یا خون بہے
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
یہ سوال نہیں جواب ہے
اس سوال کا جو پوچھا تھا تم نے
کہ عشق کرو تو کیسا لگے گا
بس یوں سمجھو کہ آگ ہی آگ
جس سمت چلو جس سمت دیکھو
پاؤں کے نیچے اور قدم قدم پر
ہر سمت سے شعلے لپکیں گے
اور آگے بڑھتے جانا ہے
اور بھول جاؤ کہ پیچھے بھی کچھ ہے
وہ جل چکا جو تھا کبھی
اتنی تنگ گلی ہے یہ کہ
مڑنا چاہو تو مڑ نہ پاؤ
ٹھہرنا چاہو تو جل جاؤ
اس لئے تم میری مانو
یہیں سے واپس لوٹ چلو
یہ روگ نہیں ہے تمہارے بس کا
عشق نہیں ہے کھیل تماشہ
آغاز میں آگ انجام میں راکھ
نہ آگ میں کودو نہ راکھ بنو
یہیں سے واپس لوٹ چلو
Nisar Zulfi
بے نشان راستے، نا معلوم سفر بے نشان راستوں پر
نا معلوم سفر پہ
دکھتے پاؤں اور بوجھل دل سے
چل پڑا ہوں اک بار پھر سے
اس سفر میں ہمراہی میرے
سارے دکھ اور سارے درد
میں اکیلا بے رہنما
کس سے پوچھوں میں راستہ
اور بتائے بھی کون بھلا
کہ خود منزل کا نہیں پتا
میں کب سے چلا ہوں کب تک چلوں گا
کچھ یاد نہیں نہ ہے خبر
کئی بار تھک کے میں بیٹھ گیا
پاؤں چھالوں سے اٹ گئے
سانسیں بھی پھر ٹوٹنے لگیں
مجھے لگا کہ اب اٹھ نہ سکوں گا
اس سے آگے چل نہ سکوں گا
میں خود کو حوصلہ دینے لگا
کہ ابھی تو جفاؤں کا آغاز ہوا ہے
ابھی سے تھک کے بیٹھ گئے
ابھی تو سفر کٹھن پڑا ہے
ابھی سے حوصلہ توڑ دیا ہے
ابھی تو طوفان آیا نہیں ہے
ابھی سے سانسیں ٹوٹ گئی ہیں
چلو اٹھو سنبھالو خود کو
ٹوٹتی سانسوں کو پھر سے جوڑو
چلو بڑھو اور بڑھتے جاؤ
میں اٹھ پڑا اور یوں لگا
جیسے ساحل سے دھکیل دے کوئی
ابھرتی لہروں میں پھینک دے کوئی
بپھرتی لہریں لے کے چلیں
کبھی چٹانوں میں کبھی بھنور میں
میں نے چاہا کہ لوٹ جاؤں
پھر سے اسی ساحل پہ جہاں سے
گٹھڑی دکھوں کی باندھ کے چلا تھا
اس گٹھڑی کو میں پھینک آؤں
کہ بوجھہ بڑا ہے سفر کڑا ہے
مگر میں ایسا کر نہ پاؤں
کہ اس ساحل پہ جانے کے سارے راستے
کٹ چکے یا ڈوب چلے ہیں
میں خواہشوں کا گلا دبا کے
خود کو لہروں کے سپرد کر کے
چل پڑا ہوں نا معلوم سفر پہ
بے نشان راستوں سے گزرتا ہوا
نجانے لہریں پار لگا دیں
یا بھنور میں پہنچا کے لوٹ آئیں
اس کے بعد کیا ہوگا
یہ سوچنا تو عبث ہے زلفی
کہ لہروں پہ مجھ کو بھروسہ نہیں ہے
جو بھی ہے بس ایک یقیں ہے
کہ لوٹ آنے کا امکاں نہیں ہے
Nisar Zulfi
Famous Poets
View More Poets