✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
Nisar Zulfi
Search
Add Poetry
Poetries by Nisar Zulfi
بارش کی رم جھم میں اشکوں کی روانی
بارش کی رم جھم میں اشکوں کی روانی
بیتاب ھوا موسم، بے حال زندگانی
پر شور ہجوم میں بھی وھی دل کی تنہائی
چہرے سے بھی مضمحل، آنکھوں میں حیرانی
بے ربط سی سوچیں، الجھن پہ بنی الجھن
اس طور سے نہ گزر، رک جا اے زندگانی
اھل وفا کوئی ، نہ اھل دل ھی سلامت
بہروپ سجائے کچھ ٹھگ کرتے ھیں نگہبانی
عشق ھوتا نہیں آساں، یہ جان کا سودا ھے
جو داؤ پہ لگاتے ھیں رھتے ھیں سدا لافانی
یہ بزم چراغاں تو سب دھوکا ھے نظر کا
حسن ظاہر تو رھا ھے ازل سے ھی فانی
بے فکر تو وھی ھے جو خود سے بھی رھے دور
دنیا کی الجھن میں تو موجوں کی سی روانی
ھم بدنام ھوئے زلفی جو دامن ھوا خالی
جس کے ھاتھوں میں ھو وقت، اسی کی کامرانی
Nisar Zulfi
Copy
ابھی ابھی جو بسا تھا دل میں
ابھی ابھی جو بسا تھا دل میں، کون تھا وہ کہاں گیا
گیا نہیں وہ صرف اکیلا، سنگ اس کے ہر سماں گیا
بہار آنے سے تھوڑا پہلے، بجلیوں نے جلا ہی ڈالا
چھو ڑ کر میں اپنا گلشن، آ با د کرنے بیا با ں گیا
لہو سے سینچا تھا جس کو میں نے، وہ سحر نجانے کہاں گئی
بھٹکتا رہا میں تلاش میں بس، نجانے کہاں وہ نشاں گیا
مہکے مہکے سے راستے ہیں، ضرور گزرا ہے وہ یہاں سے
ھوا اشارہ دے رہی ھے، وہ کہاں سے گزرا کہاں گیا
رنگیں سماں ھے برسات بھی ھے، پھر بھی دل میں ویرانیاں ھیں
ھو نہ پائے آباد اب یہ، وہیں بکھرا میں جہاں گیا
دن بھی ڈھلتا جا رھا ھے، شام نزدیک آ رھی ھے
جل رھا نہ چراغ زلفی، چاند بھی جانے کہاں گیا
Nisar Zulfi
Copy
جب آنگن میں شام اترتی ھے
جب آنگن میں شام اترتی ھے، کچھ خوف ستانے لگتے ھیں
کچھ خواب جو کب کے ٹوٹ چکے، وہ یاد آنے لگتے ھیں
پھر شب کی کالی سیاھی میں، کچھ کالے سائے ابھرتے ھیں
تب سانس روکے، بنا آواز، شدت سے چلانے لگتے ھیں
کچھ روپ دھارے یاروں کے، کریدنے کو زخم لپکتے ھیں
جس ساز سے درد جاگ اٹھیں، وہ ساز بجانے لگتے ھیں
تلخ یادوں سے رشتہ توڑنا گو اتنا آسان تو نہیں ھے
پر کوشش جب بھی کی میں نے، وہ یاد دلانے لگتے ھیں
کس نے پکارا ھے چارہ سازوں کو، انھیں کہو لوٹ جائیں
میں جس کو بھولنا چاہتا ھوں، وہ اسی کو دھرانے لگتے ھیں
انھیں کہو نہ چھیڑیں مجھ سے، نہ پوچھیں میرے پیار ک قصہ
دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ کے، کئی درد جگانے لگتے ھیں
یہاں دو قدم چلنے کے بعد، پھر لوٹ جاتے ھیں لوگ زلفی
صرف یہی نہیں، وہ لوٹ کر بھی، کئی ظلم ڈھانے لگے ھیں
Nisar Zulfi
Copy
جس سمت میں نے آواز دی
جس سمت میں نے آواز دی، اس سمت تو سنا ہے ہوا ہی نہیں
سماعت تو ان کی کمال کی ہے، پر اپنی تو کوئی صدا ہی نہیں
کیا کہوں کیسے بچھڑ گیا تھا، سر راہ ہی جو میں بھٹک گیا تھا
میرے ساتھ جو چلے تھے سب راہزن، مجھے رہبر کوئی ملا ہی نہیں
میں ناکام ہو کے جو مایوس ہوا، بے سبب نہیں وجہ بھی ہے
جس پھول کی خاطر عمر لٹا دی، وہ پھول کبھی پھر کھلا ہی نہیں
میں نے تاریک غار میں جو سورج کو دیکھا، ملا حکم کہ یہ غار چھوڑو
مجھے سزا بھی ملی میرے جرم کے مطابق، یہ سزا تو کوئی سزا ہی نہیں
میرا دل بھی ہے میرے گھر کی مانند، جسے مکیں نے چھوڑا تو پھر نہ لوٹا
ویراں ہوا یوں تیرے جانے کے بعد، کہ کوئی اس میں پھر بسا ہی نہیں
میں عجیب دائرے میں ہوں محو سفر، کہ فاصلہ نہ کٹے بس چلتا ہی رہوں
کس کے قدموں کے نشان دیکھوں، یہاں سے کبھی کوئی گزرا ہی نہیں
سنا تھا وقت لگا دیتا ہے مرہم، اس امید پہ وقت گزارا ہے بہت
اک زخم لگا تھا جو برسوں پہلے، وہ زخم کبھی پھر بھرا ہی نہیں
Nisar Zulfi
Copy
عشق نہیں ہے اتنا آساں
عشق نہیں ہے اتنا آساں، دیکھنے میں یہ جو لگتا ہے
جو کرے بس وہی جانے، جس آگ میں ہر دم سلگتا ہے
ہوتی ہے روز و شب یونہی، مشق مرگ و زیست کی
صبح سمیٹے خود کو جو، شام کو روز بکھرتا ہے
پل پل میں ہنستا روتا ہے، پل پل میں مرتا جیتا ہے
پل پل میں کھل کے مرجھائے، پل پل میں ٹوٹ کے سمٹتا ہے
خود کو ڈھونڈے خود میں ہی، پھر بھاگ جائے خود سے ہی
بے رحم وقت کی سولی پر، جس وقت دیکھو لٹکتا ہے
راتوں کو جگائے بے چین کرے، یہ دل لگی ہے عشق نہیں
عشق تو آگ کا دریا ہے، جو کود پڑے بس جلتا ہے
صبح کیسی ہے شام کیسی، عشق کو خبر کیا ہے رات کیسی
بس عشق سے پوچھو معشوق کی خبر، روح میں اسکی بستا ہے
ہنستے ہیں جس پر اہل زمانہ، دیکھ لیں کبھی تو پھٹ پڑیں سب
وہ منظر جب کہ بے چین ہو کر ٹوٹ کے کوئی بکھرتا ہے
Nisar Zulfi
Copy
کبھی گھر بنا کے خوش ہوئے
کبھی گھر بنا کے خوش ہوئے، کبھی گھر جلا کے خوش ہوئے
کبھی خوشیاں اداس کر گئیں، کبھی غم پا کے خوش ہوئے
کوئی ڈھنگ نہیں تھا رہنے کا ہمیں، نہ ہی کوئی ٹھکانہ تھا کبھی
اک نام ہی بس پہچان بنی تھی، سو نام مٹا کے خوش ہوئے
چہرے خود ہی مسکراتے ہیں، جب خوش کوئی ہوتا ہے یہاں
ہم تو سب سے الگ سے ہیں، ہم آنسو بہا کے خوش ہوئے
جب محفلیں بھری بھری سی تھیں، ہم اداس پھرتے رہتے تھے
یہ عجب ہی شوق رہا ہے اپنا، ہم محفلیں لٹا کے خوش ہوئے
جو تنگ کرے بے سبب تمہیں، اسے سزا دینا تو قانون ہے یہاں
ہمیں تنگ کیا بس خود نے ہی، ہم خود کو مٹا کے خوش ہوئے
یادیں ماضی کی تلخ بھی ہیں، یادیں ماضی کی سہانی بھی
کوئی یاد آیا تو کھل اٹھے، کسی کو بھلا کے خوش ہوئے
کبھی سو جائیں تو ٹوٹتا ہے بدن، ایسی پڑی ہے رت جگے کی عادت
بارش میں بھیگیں تو جلتا ہے جسم، ہم آگ میں نہا کے خوش ہوئے
شوق ہمارا زندہ ہے اب تک، کبھی کبھی بلا لیتے ہیں ان کو
وہ ہر بار جھٹلا کے خوش ہوئے، ہم ہر بار بلا کے خوش ہوئے
Nisar Zulfi
Copy
اے نوجوانان ارض وطن
ہر سمت پھیلا خوف سا
ہر سو کالے بادل ہیں
ہر اور ابھرتا شور سا
ہر جا بہتا لہو کا دریا
ممتا کا کلیجہ دہل رہا
بابا کی آنکھیں خشمگیں
اجڑے سہاگ، سونے آنگن
ڈستی وحشت، کہر اندھیرا
کس کو پکاریں کون سنے
رہبر ہمارے اندھے، بہرے
حق کی زبان کٹ چکی ہے
پھر بھی مقتل سجے سجے سے
بھیڑوں کا بہروپ سجائے ہوئے
پھر رہے ہیں وحشی درندے
کسی کا کلیجہ چھلنی کرتے
کسی کا سہاگ اجاڑتے ہوئے
مہاراج ہمارے پاگل کتے
کسی کے ٹکڑوں پہ پل رہے
کسی کہ در پہ پڑے ہوئے
اپنی ماں کے بیوپاری
بہنوں کی چادریں بیچنے والے
اندھیری غاروں میں بیٹھ کر
سورج کو کوسنے دینے والے
کیا خاک سحر کو سینچیں گے
اور تاروں پر کمند ڈالیں گے
اے نوجوانان ارض وطن!
کیا تمہاری رگوں کا خون بھی
جم گیا ہے جسم میں ہی
نہیں تو اٹھو سنبھالو پرچم
اتار پھینکو طوق غلامی
کہ منتظر ہے قوم ساری
اب تم ہی محمود تم ہی قاسم
نبھاؤ تقاضے، آنکھیں کھولو
گر جینے کی خواہش ہے تم میں
تو سینچ کے دکھاؤ اپنی سحر
کمند اٹھاؤ تاروں پہ ڈالو
افلاک کو کر لو مٹھی میں بند
دکھا دو ظلم کے رہبروں کو
یہ لہو اتنا ارزاں نہیں ہے
یہ قوم اتنی سہل نہیں ہے
Nisar Zulfi
Copy
دونوں جہاں لٹا بیٹھا
چنے ہیں ہم نے سب رنگ وفا کے دامن تیرا سجانے کو
دیکھ تو مڑ کے ایک نظر تو آ رہا ہوں منانے کو
کچھ بہا دیا ہے طوفانوں میں کچھ آندھیاں ساتھ لے اڑیں
کیوں آگ لے کر تم آئے ہو، اب کیا بچا ہے جلانے کو
کہا چادر دیکھ کے پاؤں پھیلا، سو پاؤں ہی اپنے کاٹ دئیے
چادر سنبھالو تم اپنی یہاں کچھ نہیں اب پھیلانے کو
ملا حکم جب چلنے کو، بے سروساماں ہی ہم چل دئیے
شہر چھوٹا چھوٹ گیا، آباد کریں اب ویرانے کو
کہا دل کی لگی اچھی نہیں، میری مان لے تو لوٹ آ
کیا ہی پاگل شخص ہے یہ، سمجھا رہا ہے دیوانے کو
کیا ضد تھی اس ستم گر کی، کہ رو کے تو دکھا دے مجھ کو
جو رو پڑے تو سب خون نکلا، آنسو نہیں تھے بہانے کو
زلفی سا سوداگر بھی کبھی، دیکھا ہے تم نے یہاں پہ کوئی
دونوں جہاں لٹا بیٹھا بس ایک شخص کے پانے کو
Nisar Zulfi
Copy
کسی ابر کی مانند
کسی ابر کی مانند وہ بھی آج پھوٹ کے شائد رویا ہوگا
ہجر کی لمبی راتوں میں کون کہاں پھر سویا ہوگا
وہ راہ بدل کے چلتا ہے روز کسی امید پہ جو
لگتا ہے کسی موڑ پہ اس نے کارواں کوئی کھویا ہوگا
مجھے رخصت کرنا تیرے لئے یوں کبھی آسان نہ تھا
کتنی نادان سوچ ہے یہ، کون کسی کو رویا ہوگا
آ دیکھ میرے ماتھے پہ اب بھی، آخری وقت کا پسینہ ہے باقی
پھر کس کس داغ کو اے ناداں، دامن سے تو نے دھویا ہوگا
اس کی آنکھوں میں رت جگے کا، اثر کچھ آج واضع نہیں ہے
مدت کے بعد وہ بھی شائد آج کہیں پہ سویا ہوگا
میں الجھ جاؤں ذات میں اپنی، تیری یاد سے مجھ کو پناہ ملے
بڑا خوش بخت انسان ہے جو، خود کو سوچ کے رویا ہوگا
چلو پوچھ آئیں زلفی سے کہ انجام محبت کا کیا ہوا
کوئی بیج وفا کا اس نے بھی، کسی موسم میں شائد بویا ہوگا
Nisar Zulfi
Copy
روشن خیالی
آؤ خود ساختہ بجلیوں کو آج یوں ہم گرا دیں
کہ اپنے ہی آشیانوں کو خود ہی ہم جلا دیں
ہوئی ہے آگ ٹھنڈی گر ہوا کے تھم جانے سے
اک پر سے بھڑکائیں شعلے، اک پر سے ہوا دیں
آؤ کھینچ لائیں حق کو پھر سے سردار
جو منصور کوئی ہو ہم میں اسے سولی پہ چڑھا دیں
منصب عطا کریں اسے جو مقتل کا پاسباں ہو
مکتب کے پاسباں کو مکتب میں ہی دفنا دیں
چلو آتش نمرود کو بھڑکا دیں مل کے چار سو
اس وقت کے ابراھیم کو پھر سے وہی سزا دیں
آؤ ھر دور کے موسی کو پھر امتحاں میں ڈالیں
چلو کہ وقت کے فرعونوں کو پھر سے ہم پناہ دیں
اس کا کیا کام یہاں “کم“ سے جو جلا بخشے
ہر قوم کے مسیحا کو بس چلیپا پہ چڑھا دیں
ایفائے عہد سے غرض کیا، بیعت یزید کر لیں واجب
حسین جو آئے درمیاں تو پھر سے نیا کربلا دیں
خدا کا تو بس نام ہے بیت الله سے واسطہ کیا
ہم روشن خیال لوگ ہیں، مندر دیں کہ کلیسا دیں
Nisar Zulfi
Copy
بارش اور آنسو
سمندر سے جب اٹھتا ہے پانی
جسم سے جیسے کھچتا ہے لہو
بادل کو اڑاتی پھرتی ہے ہوا
روح بھی جیسے بکھرتی جائے
کتنا گہرا مراسم ہے دیکھو
آدمی کا ابرو آب سے
موج ساحل کو چھو کے پلٹے
حال ماضی میں الجھ جائے
کیا اشتراک ابرو آدم
بارش برسے آنسو چھلکے
ابر سے ٹوٹی بارش ہو یا
آنکھ سے نکلا آنسو ہو
اک زمیں کی تپش مٹا جائے
اک روح ہری کر جاتا ہے
یہی تو وجہ اداسی ہے
جب کالی گھٹا کہیں چھاتی ہے
یا ٹوٹ کے بارش برستی ہے
تو رونے کو جی چاہتا ہے
Nisar Zulfi
Copy
جانے کس حال میں رہتے ہو
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
جانے کس حال میں رہتے ہو
اک مدت پہلے کی سب باتیں
یاد ہیں ابھی تک اسی طرح
ان یادوں سے عکس بن رہا ہوں
کہ ماضی سے حال تراش رہا ہوں
اک مدت پہلے کی بات ہے یہ
وہ نظریں جھکا کے سوچتے رہنا
پھر سوچتے سوچتے مسکرا دینا
معصوم شرارتیں جب انگڑائی لیتیں
تو بات بات پہ قہقہے لگانا
کبھی بے وجہ ہی ہنستے جانا
اور
بے وجہ ہنسی پہ سب کو ہنسانا
کبھی بیٹھے بیٹھے ہی رو دینا
کوئی پیار سے دیکھے تو روٹھ جانا
وہ اپنے آپ میں سمٹے رہنا
چپ چاپ کہیں پہ بیٹھے رہنا
وہ چہرے دیکھ کے قیاس لگانا
وہ انداز دیکھ کے نام دینا
چاہت کے مفہوم سے نا آشنا
محبت کے ذکر پہ بگڑ جانا
پھر زندگی نے رخ بدلا
بس ایک شخص ہی محور بنا
ہر سوچ میں شامل ہو گیا
پھر دن بھر اسے سوچتے رہنا
دن بھر اس سے باتیں کرنا
اسے ہنسا کے خود بھی ہنسنا
اس کے دکھوں پہ رو پڑنا
وہ وعدے ساتھ جینے کے
بچھڑ کے مرنے کی دعائیں کرنا
وہ پل پل اس کی خبر رکھنا
اور
پل پل اپنی خبر دینا
یہ سب تو اب بھی ہے مگر
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
بس ایک قیاس ہے اب
کہ
کس حال میں تم رہتے ہو
اب کوئی شرارت کوئی قہقہہ
ہنسنا ہنسانا، رونا رلانا
سب کچھ چھوڑ چکے ہو تم
اور
ایک ہی یاد ستاتی ہے
جب بیقرار ہوتے ہو تم
تو دن بھر ٹہلتے رہتے ہو
راتوں کو بے چین ہو ہو کر
کروٹیں بدلتے رہتے ہو
ہر آہٹ پہ چونک جاتے ہو
ہر دستک پہ دھڑکن بڑھتی ہے
ہر چہرے کو غور سے تکتے ہو
پھر آنکھوں میں عکس بھرتے ہو
کبھی بے دھیانی میں فرش پر
اک نام لکھتے مٹاتے ہو
جب اپنا ماضی سوچتے ہو
خود
اپنے آپ پہ حیران ہوتے ہو
جب دل بے تاب ہوتا ہے
پھر ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
تنہا کمرے میں بند ہو کر
پھر دیر تک کھوئے رہتے ہو
سب سے الگ تنہا تنہا
الجھے الجھے رہتے ہو
یا بے ربط سوچوں میں محو ہو کر
بالوں میں انگلی گھماتے ہوئے
چھت کو گھورتے رہتے ہو
کھلی آنکھوں سے خواب کوئی
اپنے آپ ہی بنتے ہو
ہر خواب میں بس ایک شخص
جو ہر سوچ میں تمہاری شامل ہے
پھر سوچتے سوچتے خوف سے کسی
خیالوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے
وہ خوف جو تمہاری زندگی کو
روگ میں بدل سکتا ہے
پھر دعائیں بہت تم مانگتے ہو
اپنی محبت کو پانے کی
مگر
یہ سب قیاسی باتیں ہیں
جو تراشی ہیں تمھارے ماضی سے میں نے
اک مدت سے تمہیں دیکھا نہیں
جانے کس حال میں رہتے ہو
Nisar Zulfi
Copy
میرا خواب جاں ریزہ ریزہ
میں دیر تلک کہیں سویا رہا
اک خواب جاں آنکھوں میں بسا کے
اس نیند کا خمار بھی عجب ہی رہا
ہر سمت بہاریں، ہر سمت خوشیاں
سب چاہنے والے میرے آس پاس
میری خواہش پہ مر مٹنے والے
میں مطمئین ہو کے سوتا ہی رہا
بڑا بھروسہ تھا احباب پہ مجھ کو
اک ہاتھ چھوٹتا اک ہاتھ سنبھالتا
میں ڈگمگاتا پر گرنے نہ پاتا
کٹھن سفر کے بعد بھی
پاؤں پہ آبلہ کوئی نہ ہوتا
یہی سوچتا رہا میں سوتے ہوئے
زمانے کا بوجھ کندھے پہ رکھ کے
میں سر اٹھا کے چلتا رہوں گا
کہ بہت کندھے ہیں سہارے کے لئے
مگر
جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھا
میں اکیلا بے سائبان
نہ کوئی سہارا نہ کوئی شناسا
جو آس پاس تھے سب تماشائی
میں ٹوٹ کے جس کے قدموں میں گرا
سنبھالا نہیں بس ٹھوکر ماری
سنبھلنے کی کوشش خود ہی کی تو
اپنی ہی ٹھوکر سے گر پڑا میں
میرے اپنے وجود کا بوجھ ھی اتنا
نہ سر اٹھے نہ قدم بڑھیں
بچا ہوا ہے میرے پاس کیا
آ کے دیکھو اک بار ذرا
میرا خواب جاں ریزہ ریزہ
میری خواہشیں سب سلگتی ہوئیں
میرے ٹوٹے پر ہاتھوں میں ہیں
میری دم توڑتی حسرتیں
میرا خواب جاں، ریزہ ریزہ
Nisar Zulfi
Copy
لوٹ چلو
کسی کٹھن سفر کے دوراں
کسی موڑ میں الجھ جاؤ
یا بیاباں میں بھٹک جاؤ
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی سمندر کے سفر پہ نکلو
پھر کشتی اگر ڈولنے لگے
اور نا خدا بھی چھوڑ جائے
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی تپتے ہوئے صحرا میں
تم پیاس کی شدت سے
یا دھوپ کی حدت سے
محروم ابرو آب تڑپو اور
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
کبھی برف کی چٹانوں پر
کبھی آگ پر یا کانچ پر
ننگے پاؤں چلنے سے
پیپ رسے یا خون بہے
پھر بھی مجبور سفر رہو تو
بتاؤ تمھیں کیسا لگے گا
یہ سوال نہیں جواب ہے
اس سوال کا جو پوچھا تھا تم نے
کہ عشق کرو تو کیسا لگے گا
بس یوں سمجھو کہ آگ ہی آگ
جس سمت چلو جس سمت دیکھو
پاؤں کے نیچے اور قدم قدم پر
ہر سمت سے شعلے لپکیں گے
اور آگے بڑھتے جانا ہے
اور بھول جاؤ کہ پیچھے بھی کچھ ہے
وہ جل چکا جو تھا کبھی
اتنی تنگ گلی ہے یہ کہ
مڑنا چاہو تو مڑ نہ پاؤ
ٹھہرنا چاہو تو جل جاؤ
اس لئے تم میری مانو
یہیں سے واپس لوٹ چلو
یہ روگ نہیں ہے تمہارے بس کا
عشق نہیں ہے کھیل تماشہ
آغاز میں آگ انجام میں راکھ
نہ آگ میں کودو نہ راکھ بنو
یہیں سے واپس لوٹ چلو
Nisar Zulfi
Copy
کوئی پوچھے تو سہی
نجانے وہ کس راہ سے گزرا، ہمیں تو کوئی بھی نشاں نہ ملا
عمر ہوئی ہے گھر سے نکلے، پھر کبھی اپنا مکاں نہ ملا
پاؤں چھالوں سے اٹ تو گئے تھک کے کہیں پھر بیٹھے نہیں
بس چلتے رہنا یہ حکم ملا تھا، رکنے کا کہیں فرماں نہ ملا
میں غموں سے،غم مجھ سے ملے، پھر مل کے خوش ہوئے دونوں
ایسی دولت پائی ہے میں نے، کھونے کا جسے کوئی امکاں نہ ملا
کوئی پوچھے تو سہی، کیا حالات رہے، کس کرب سے گزر کے آئے ہیں
آندھیاں تو ہزار ملیں ، صد شکر کہ کوئی بھی طافاں نہ ملا
سمجھا رہے ہیں لوگ مجھے، بکھر چکے ہو سمیٹ لو خود کو
کہاں میں کھویا، خبر نہیں ہے، مجھے تو اپنا کوئی نشاں نہ ملا
رینگتے رہتے تو کیا برا تھا، برا ہوا جو اڑ گئے تھے
عجب شوق تلاش تھی یہ، آسماں سے گزر کے آسماں نہ ملا
میں تنہائی کو ڈھونڈنے نکلا، قیامت کا سا شور ہر جا
شہر تو خیر شہر ہے زلفی، جنگل بھی کوئی ویراں نہ ملا
Nisar Zulfi
Copy
کسی رتیلے محل کی مانند
کوئی موج چلی ہے میرے من کے اندر، سکون سارا بہہ گیا
وہ لوٹ گیا کچھ کہے بنا، میں اس کو تکتا رہ گیا
لکھا نہ ہو جو نصیب میں، کبھی ملتا نہیں چاہے جو کرو
میرے سارے دکھوں کو سن کے، اتنا ہی مجھ سے وہ کہہ گیا
نہ سوچ سکوں نہ چاہ سکوں، میرا اپنے آپ بھی حق نہیں
ہر چوٹ پہ میں مسکراہ اٹھا، ہر درد ہنس کے میں سہہ گیا
میرے ارد گرد ہجوم تھا، سب چھوڑ چلے جب وقت پڑا
میرے ساتھ ساتھ چلا تھا تو، میرے ساتھ ہی تنہا رہ گیا
کسی رتیلے محل کی مانند، زلفی بھی کتنا کم ظرف نکلا
حالات کی پہلی آندھی سے ہی، یکلخت ایسے ڈھہ گیا
Nisar Zulfi
Copy
بے نشان راستے، نا معلوم سفر
بے نشان راستوں پر
نا معلوم سفر پہ
دکھتے پاؤں اور بوجھل دل سے
چل پڑا ہوں اک بار پھر سے
اس سفر میں ہمراہی میرے
سارے دکھ اور سارے درد
میں اکیلا بے رہنما
کس سے پوچھوں میں راستہ
اور بتائے بھی کون بھلا
کہ خود منزل کا نہیں پتا
میں کب سے چلا ہوں کب تک چلوں گا
کچھ یاد نہیں نہ ہے خبر
کئی بار تھک کے میں بیٹھ گیا
پاؤں چھالوں سے اٹ گئے
سانسیں بھی پھر ٹوٹنے لگیں
مجھے لگا کہ اب اٹھ نہ سکوں گا
اس سے آگے چل نہ سکوں گا
میں خود کو حوصلہ دینے لگا
کہ ابھی تو جفاؤں کا آغاز ہوا ہے
ابھی سے تھک کے بیٹھ گئے
ابھی تو سفر کٹھن پڑا ہے
ابھی سے حوصلہ توڑ دیا ہے
ابھی تو طوفان آیا نہیں ہے
ابھی سے سانسیں ٹوٹ گئی ہیں
چلو اٹھو سنبھالو خود کو
ٹوٹتی سانسوں کو پھر سے جوڑو
چلو بڑھو اور بڑھتے جاؤ
میں اٹھ پڑا اور یوں لگا
جیسے ساحل سے دھکیل دے کوئی
ابھرتی لہروں میں پھینک دے کوئی
بپھرتی لہریں لے کے چلیں
کبھی چٹانوں میں کبھی بھنور میں
میں نے چاہا کہ لوٹ جاؤں
پھر سے اسی ساحل پہ جہاں سے
گٹھڑی دکھوں کی باندھ کے چلا تھا
اس گٹھڑی کو میں پھینک آؤں
کہ بوجھہ بڑا ہے سفر کڑا ہے
مگر میں ایسا کر نہ پاؤں
کہ اس ساحل پہ جانے کے سارے راستے
کٹ چکے یا ڈوب چلے ہیں
میں خواہشوں کا گلا دبا کے
خود کو لہروں کے سپرد کر کے
چل پڑا ہوں نا معلوم سفر پہ
بے نشان راستوں سے گزرتا ہوا
نجانے لہریں پار لگا دیں
یا بھنور میں پہنچا کے لوٹ آئیں
اس کے بعد کیا ہوگا
یہ سوچنا تو عبث ہے زلفی
کہ لہروں پہ مجھ کو بھروسہ نہیں ہے
جو بھی ہے بس ایک یقیں ہے
کہ لوٹ آنے کا امکاں نہیں ہے
Nisar Zulfi
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets