گلشن میں عِشْق کی علامت کیا ہے
گل اور بلبل کا تَذْکِرَہ ملتا ہے
فرہاد و شیریں یا تو قَیْس و لیلیٰ
ان سب سے بڑھ کر فنا فی اللہ ہے
یہ غم عشق میں ہم سوختہ ہوجائیں گے
ہوش پروانوں کے یہ دیکھ کر اڑ جائیں گے
چاہنے والے کبھی سینکڑوں مل جائیں گے
عِشْق پَرْداز نہ ہم جیسے تو مل پائیں گے
یہ محبت کی تو راہیں ہی کٹھن ہوتی ہیں
تجھ سے قربت کے بڑھانے میں پَھبَن دیتی ہیں
ہم نے امید وفا کی ہی تو رکھی تم سے
کوئی شکوہ نہ شکایت تو کبھی کی ہم نے
بے وفائی سے تو دامن کو بچایا ہم نے
نہ کبھی غیروں سے یہ دل کو لگایا ہم نے
تیری یادوں کو تو دل میں ہی بسایا ہم نے
تیری خاطر تو یہ جیون کو لٹایا ہم نے
داغ حسرت سے تو دل کو ہی سجایا ہم نے
اپنے ارماں کو تو آنسو میں بہایا ہم نے
تیرے در کی ہی تو بس خاک ہی چھانی ہم نے
چوٹ پر چوٹ ہمیشہ ہی تو کھائی ہم نے
دل تو زخموں سے ہی بس چور ہوا جاتا ہے
نہ طبیبوں کو تو یہ مرض سمجھ آتا ہے
کوئی دیوانہ کبھی کہتا ہے مجنوں کوئی
سوچ کر حیراں ہوں کہہ دیتا ہے کوئی کچھ بھی
درد میں ڈوبے ہوئے نالے سنائیں کس کو
داغ حسرت کے جو ہیں وہ تو دکھائیں کس کو
رات دن آہ و فغاں میں تو میرے کٹتے ہیں
میرے آنسو کے تو قطرے ہی گہر بنتے ہیں
کوئی نالے کو میرے سن کے مچل جاتا ہے
میں جو تڑپوں تو یہ اوروں کو بھی تڑپاتا ہے
شکر ہے صحرا کا دامن نہ تو تھاما ہم نے
نہ ہی فرہاد سا جوئے شِیر لایا ہم نے
زندگی ہے تو محبت ہی محبت اپنی
جو حقیقی یا مجازی میں اثر ہی رکھتی
درد سے تیرے ہی نسبت تو ہماری ہوگی
راہِ اُلْفَت کی تو ہر چیز ہی پیاری ہوگی
یہ غم عشق میں ہم سوختہ ہوجائیں گے
ہوش پروانوں کے یہ دیکھ کر اڑ جائیں گے