آئِینِ عِشق
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbaiگلشن میں عِشْق کی علامت کیا ہے
گل اور بلبل کا تَذْکِرَہ ملتا ہے
فرہاد و شیریں یا تو قَیْس و لیلیٰ
ان سب سے بڑھ کر فنا فی اللہ ہے
یہ غم عشق میں ہم سوختہ ہوجائیں گے
ہوش پروانوں کے یہ دیکھ کر اڑ جائیں گے
چاہنے والے کبھی سینکڑوں مل جائیں گے
عِشْق پَرْداز نہ ہم جیسے تو مل پائیں گے
یہ محبت کی تو راہیں ہی کٹھن ہوتی ہیں
تجھ سے قربت کے بڑھانے میں پَھبَن دیتی ہیں
ہم نے امید وفا کی ہی تو رکھی تم سے
کوئی شکوہ نہ شکایت تو کبھی کی ہم نے
بے وفائی سے تو دامن کو بچایا ہم نے
نہ کبھی غیروں سے یہ دل کو لگایا ہم نے
تیری یادوں کو تو دل میں ہی بسایا ہم نے
تیری خاطر تو یہ جیون کو لٹایا ہم نے
داغ حسرت سے تو دل کو ہی سجایا ہم نے
اپنے ارماں کو تو آنسو میں بہایا ہم نے
تیرے در کی ہی تو بس خاک ہی چھانی ہم نے
چوٹ پر چوٹ ہمیشہ ہی تو کھائی ہم نے
دل تو زخموں سے ہی بس چور ہوا جاتا ہے
نہ طبیبوں کو تو یہ مرض سمجھ آتا ہے
کوئی دیوانہ کبھی کہتا ہے مجنوں کوئی
سوچ کر حیراں ہوں کہہ دیتا ہے کوئی کچھ بھی
درد میں ڈوبے ہوئے نالے سنائیں کس کو
داغ حسرت کے جو ہیں وہ تو دکھائیں کس کو
رات دن آہ و فغاں میں تو میرے کٹتے ہیں
میرے آنسو کے تو قطرے ہی گہر بنتے ہیں
کوئی نالے کو میرے سن کے مچل جاتا ہے
میں جو تڑپوں تو یہ اوروں کو بھی تڑپاتا ہے
شکر ہے صحرا کا دامن نہ تو تھاما ہم نے
نہ ہی فرہاد سا جوئے شِیر لایا ہم نے
زندگی ہے تو محبت ہی محبت اپنی
جو حقیقی یا مجازی میں اثر ہی رکھتی
درد سے تیرے ہی نسبت تو ہماری ہوگی
راہِ اُلْفَت کی تو ہر چیز ہی پیاری ہوگی
یہ غم عشق میں ہم سوختہ ہوجائیں گے
ہوش پروانوں کے یہ دیکھ کر اڑ جائیں گے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






