میں نے پوچھا محبتیں کیا ہیں؟
بولا قدرت کا اک حسیں تحفہ
میں نے پوچھا کہ کہاں ملتی ہیں؟
بولا کچھ سوچ نہ ۔ فنا ہو جا
میں نے پوچھا کہ نفرتیں کیا ہیں؟
بولا انسانیت سے بے خبری
میں نے پوچھا کہ جبر و دہشت کیا؟
بولا فرعونیت کی فتنہ گری
میں نے پوچھا حیا ہوتی ہے؟
بولا اٹھتی نظر کا جھک جانا
میں نے پوچھا خطا کیا ہوتی ہے؟
بولا کردار کا بھٹک جانا
باتوں باتوں میں دل کی بات چلی
ٹھہرے لمحوں سے کائنات چلی
میں نے پوچھا ہجر کا تو بولا
اس میں اتنی کوئی دوری بھی نہیں
میں نے پوچھا وصال کے لمحے؟
ہنس کے بولا یہ ضروری بھی نہیں
میں نے پوچھا بہار کا ماخذ؟
بولا رنگوں گلوں کی سرشاری
میں نے پوچھا خزاں کا پھیلاؤ؟
بولا حسن نظر سے بیزاری
میں نے پوچھا محبتوں کا سفر؟
بولا موضوع بہت رومانوی ہے
میں نے پوچھا تقاضہ حاصل کا؟
بولا یہ بات بہت ثانوی ہے
میں نے پوچھا جو وفا کی بابت
دامن ضبط اسکا چھوٹ گیا
میں نے پھر پوچھے وفا کے معنی
آئینہ مسکرا کے ٹوٹ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔