آئینے سچ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٢
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillمیں نے پوچھا محبتیں کیا ہیں؟
بولا قدرت کا اک حسیں تحفہ
میں نے پوچھا کہ کہاں ملتی ہیں؟
بولا کچھ سوچ نہ ۔ فنا ہو جا
میں نے پوچھا کہ نفرتیں کیا ہیں؟
بولا انسانیت سے بے خبری
میں نے پوچھا کہ جبر و دہشت کیا؟
بولا فرعونیت کی فتنہ گری
میں نے پوچھا حیا ہوتی ہے؟
بولا اٹھتی نظر کا جھک جانا
میں نے پوچھا خطا کیا ہوتی ہے؟
بولا کردار کا بھٹک جانا
باتوں باتوں میں دل کی بات چلی
ٹھہرے لمحوں سے کائنات چلی
میں نے پوچھا ہجر کا تو بولا
اس میں اتنی کوئی دوری بھی نہیں
میں نے پوچھا وصال کے لمحے؟
ہنس کے بولا یہ ضروری بھی نہیں
میں نے پوچھا بہار کا ماخذ؟
بولا رنگوں گلوں کی سرشاری
میں نے پوچھا خزاں کا پھیلاؤ؟
بولا حسن نظر سے بیزاری
میں نے پوچھا محبتوں کا سفر؟
بولا موضوع بہت رومانوی ہے
میں نے پوچھا تقاضہ حاصل کا؟
بولا یہ بات بہت ثانوی ہے
میں نے پوچھا جو وفا کی بابت
دامن ضبط اسکا چھوٹ گیا
میں نے پھر پوچھے وفا کے معنی
آئینہ مسکرا کے ٹوٹ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






