لائے گی رنگ شوق کی فریاد یقیناً
آئے گی تجھے ٹوٹ کے اک یاد یقیناً
انمٹ ہیں مرے نقش در و بام وفا پہ
روئے گا میرے ہجر میں صیاد یقیناً
کچھ تیرے حوالوں میں لطافت ہی بہت ہے
پھیلی گی چار سو مری روداد یقیناً
جس سمت دیکھئے نظر آتی ہیں تتلیاں
اس باغ میں ہیں خوشبوئیں آزاد یقیناً
چشمے ابل پڑے ہیں خیالات کی صورت
لفظوں میں رچ گئی ہے تری داد یقیناً
تارے ،سیاہ رات،افق ،چمکتا سورج
ہوتی ہی نہیں حسن کی معیاد یقیناً
راہ وفا میں درد کی لہریں بکھر گئیں
دھڑکا ہے یہ میرا دل برباد یقیناً